لاہور کی فیصل ٹاؤن مارکیٹ میں چکن کڑاہی کھانے کے بعد احمد نے جیب سے پیسے نکالے ہزار ہزار کے چار نوٹ اور پھر 75 روپے کے چار نوٹ، لیکن محمد رمضان کیشئیر نے نوٹ پکڑتے ساتھ ہی اپنا سر کھجانا شروع کر دیا اور اوپر کے چاروں نوٹ احمد کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ ’بھائی! یہ نہیں چلتے مہربانی کریں۔‘
احمد نے دکاندار کو بڑی سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ان ںوٹوں کو لینے پر بالکل بھی راضی نہ ہوئے۔ ان کو یہ نوٹ آج ہی ایک کورئیر کمپنی کے ہیڈ آفس سے بقایا جات کے طور پر ملے تھے اور انہوں نے انہیں فوری اپنی جیب میں رکھ لیا تھا۔ اور اب یہ چوتھی دکان تھی جہاں دکاندار نوٹ لینے کو تیار نہیں۔
یہ احمد کی نہیں بلکہ 75 روپے کے نوٹ کی کہانی ہے، جو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بڑی دھوم دھام سے 2022 اور 2023 میں جاری کیا تاہم یہ پاکستانی عوام کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکا۔
مزید پڑھیں
-
75 روپے کا نوٹ سبز اور نیلے دونوں رنگوں میں ’لین دین کے قابل‘Node ID: 804291
-
کرپٹو کرنسی کی مائننگ پر کون سے خطرات منڈلا رہے ہیں؟Node ID: 887260
دکان دار اسے لینے سے گھبراتے ہیں، عوام اسے ’مشکوک‘ سمجھتے ہیں۔
یہ نوٹ جو قائداعظم سے لے کر سرسید تک کے چہروں سے سجا ہے بازاروں میں رُلتا پھر رہا ہے۔
آخر یہ نوٹ ناکام کیوں ہوا؟ کیا پاکستانی عوام واقعی نئی چیزوں سے اتنا ڈرتے ہیں؟ اور کیا یہ پہلی بار ہے کہ شہریوں نے اپنی کرنسی کو ٹھکرایا ہے؟ آئیے اس ’75 روپے کے معاملے‘ کو کھوجتے ہیں۔
پچھہتر روپے کا ’مشکوک‘ نوٹ
سال 2022 میں جب پاکستان اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منا رہا تھا، سٹیٹ بینک نے ایک چمک دار، رنگین 75 روپے کا نوٹ جاری کیا۔
اس پر قائداعظم، فاطمہ جناح، علامہ اقبال اور سر سید احمد خان کی تصاویر تھیں اور اسے جدید سکیورٹی فیچرز (جیسے ہولوگرافک تھریڈ اور نابیناؤں کے لیے ریلف پرنٹنگ) سے سجایا گیا تھا۔

سنہ 2023 میں سٹیٹ بینک کے 75 برس مکمل ہونے پر اسی نوٹ کا ایک اور ورژن آیا جس پر ایف ڈبلیو او ایئر بیک اور دیگر علامات تھیں۔
سٹیٹ بینک کا یہ ’منفرد‘ خراج عقیدت مگر کسی کام نہ آیا جب عوام نے اس نوٹ کو دیکھتے ساتھ ہی ’مشکوک‘ سمجھ لیا۔ کراچی سے خیبر تک اس نوٹ کو ذرا سی بھی پذیرائی نہ مل سکی۔ دکان داروں نے یہ نوٹ لینے سے صاف انکار کر دیا۔
اس کے بعد شہریوں نے شکایات کے انبار لگا دیے کہ دکانیں، ریسٹورنٹس حتیٰ کہ پیٹرول پمپس بھی اس نوٹ کو ’نامعلوم چیز‘ سمجھ کر واپس کر رہے ہیں۔
ایک خاتون شازیہ بی بی ہنستے ہوئے بتاتی ہیں ’میں نے انارکلی میں کپڑوں کی دکان پر 75 روپے کا نوٹ دیا تو دکان دار نے کہا ‘بی بی! یہ تو بچوں کے کھیل کا نوٹ لگتا ہے‘!
پاکستانی عوام ہچکچاتے کیوں ہیں؟
پاکستانی معاشرہ روایتی طور پر نئی چیزوں سے ہچکچاتا ہے۔ چاہے وہ ڈیجیٹل پیمنٹس ہوں یا نیا کرنسی نوٹ، لوگ پہلے ’ٹیسٹ‘ کرنا چاہتے ہیں۔
ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر عائشہ احمد کہتی ہیں ’ہمارے ہاں 50، 100، یا 500 کے نوٹ چلتے ہیں۔ 75 روپے کا نوٹ عجیب سا لگتا ہے جیسے کوئی بچوں کا مونوپولی کھیل ہو۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ یہ نوٹ جاری کرنے سے پہلے رائے عامہ بھی ہموار کرتی۔ آج تک ذرائع ابلاغ پر حکومت نے کوئی مہم نہیں چلائی۔‘

غلط معلومات
کئی دکانداروں کو لگتا ہے کہ یہ نوٹ عارضی ہے یا بینک اسے قبول نہیں کریں گے۔
ایک افواہ یہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ یہ نوٹ ’صرف یادگاری‘ ہے حالانکہ سٹیٹ بینک نے واضح کیا کہ یہ مکمل قانونی ہے۔
ایک دکاندار ارشد علی کہتے ہیں کہ ’شروع شروع میں، میں نے اپنے گاہکوں سے یہ نوٹ پکڑ لیے تھے اور اب میرے پاس ڈھیر لگ گیا ہے۔ میرے سے آگے کوئی نہیں لیتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ نوٹ درست نہیں ہے۔‘
چھوٹے لین دین کا مسئلہ
پاکستانی بازاروں میں چھوٹے لین دین (جیسے چائے کی دکان یا بس کرایہ) کے لیے 10، 20، یا 50 روپے کے نوٹ عام ہیں۔ 75 روپے کا نوٹ بڑے لین دین کے لیے موزوں ہے نہ ہی چھوٹے، جس سے دکاندار اسے ’بے کار‘ سمجھتے ہیں۔
ایک رکشہ ڈرائیور محمد بشیر مزاحیہ انداز میں کہتے ہیں کہ ’75 روپے کا نوٹ تو جیسے شادی والا سوٹ ہو، خوبصورت ہے لیکن روز روز نہیں پہن سکتے۔ اس کا حساب بھی نہیں ہوتا، چینج کروانا عذاب ہو جاتا ہے۔ ایک دو بار اتفاق ہوا تھا میرا، اس کے بعد میں نے کانوں کو ہاتھ لگا لیے۔‘

75 کا نوٹ پہلا نہیں ہے
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستانی عوام نے کرنسی نوٹ کو ٹھکرایا ہو۔ ایسی ہی تجربہ 1947 میں آزادی کے وقت بھی پیش آیا تھا۔
تاریخ کے استاد ڈاکٹر اعجاز انور بتاتے ہیں کہ ’بٹوارے کے بعد جب ہندوستانی روپوں پر ’گورنمنٹ آف پاکستان‘ کا سٹامپ لگایا گیا تو لوگوں نے انہیں جعلی سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کیا۔ سٹیٹ بینک کے قیام (1948) تک یہ نوٹ بازاروں میں مشکوک ہی رہے۔‘
اسی طرح کی صورت 1971 میں بھی پیش آئی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد۔ بنگلہ دیش سے وابستہ نوٹوں کو فوری طور پر ڈی مونیٹائز کیا گیا۔ لوگوں نے ان نوٹوں کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی کیونکہ وہ ’بے کار‘ ہو چکے تھے۔
ڈاکٹر اعجاز انور بتاتے ہیں کہ ’جب 1980 میں جب ایک روپے کا نوٹ سکّوں سے بدلا گیا، لوگوں نے نوٹ جمع رکھے کیونکہ انہیں لگا کہ یہ نایاب ہو جائیں گے۔ نتیجہ؟ دکانداروں نے نوٹ لینے بند کر دیے کیونکہ ہر کوئی اسے یادگار سمجھ رہا تھا۔‘
’پاکستانی عوام کو کرنسی نوٹ سے زیادہ اپنی پرانی عادات پیاری ہیں۔ اگر نوٹ نیا ہے تو وہ اسے جیب میں ڈالنے سے پہلے 10 مرتبہ سوچیں گے۔‘

پاکستان میں نوٹوں کی تبدیلی
سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 1947 سے لے کر 2025 تک کرنسی نوٹوں کی ڈیزائن اور اقسام میں کم از کم 20 بڑی تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ ان میں نئے ڈیزائن، سیکیورٹی فیچرز، اور ڈینومینیشنز (جیسے 5000 روپے کا نوٹ 2006 میں) شامل ہیں۔ 75 روپے کا نوٹ دو بار چھاپا گیا۔
2022 میں پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے لیے 50 ملین نوٹ چھاپے گئے۔ اسی طرح 2023 میں سٹیٹ بینک کی 75ویں سالگرہ کے لیے 15 ملین نوٹ چھاپے گئے۔
کل ملا کر65 ملین نوٹ جاری ہوئے، جو کہ 4.3 بلین کل کرنسی نوٹوں کا صرف 1.5 فیصد ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس کم تعداد نے بھی شاید اس کی غیرمقبولیت میں کردار ادا کیا کیونکہ یہ عام نوٹوں (جیسے 100 یا 500 روپے) کی طرح ہر جگہ نظر نہیں آتا۔
75 روپے کے نوٹ کا ’کلٹ سٹیٹس‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں دکاندار اس نوٹ سے گھبراتے ہیں وہیں کچھ لوگ اسے جمع کرنے لگے ہیں۔
لاہور کے ایک نوٹ کلیکٹر زاہد بٹ کہتے ہیں ’یہ نوٹ نایاب ہے کیونکہ کوئی اسے استعمال ہی نہیں کرتا۔ میں نے 50 نوٹ جمع کر لیے ہیں، مستقبل میں یہ قیمتی ہو سکتے ہیں۔‘
پھلوں کے تاجر محمد زوہیب کو نوٹ جمع کرنے کا شوق ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 75 روپے کا نوٹ خریدنےکے لیے 100 روپے خرچ کیے۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر میمز کی بھرمار ہے۔
ایک ایکس پوسٹ میں لکھا تھا ’75 روپے کا نوٹ پاکستانی معیشت کی طرح ہے، سب کو پتا ہے کہ یہ موجود ہے، لیکن کوئی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا۔‘

ایک اور واقعہ لاہور کے ایک پیٹرول پمپ پر پیش آیا جب ایک گاہک نے 75 روپے کا نوٹ دیا تو ملازم نے کہا ’سر! یہ تو نئی فلم کا ٹکٹ لگتا ہے۔‘
یہ مزاح ہی اس نوٹ کی کہانی کو دلچسپ بناتا ہے۔ ایک نوٹ جو قانونی ہے، خوبصورت ہے لیکن بازاروں میں ’خوار‘ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک کو بہتر مہم چلانی چاہیے جیسے کہ دکانداروں کے لیے ورکشاپس یا سوشل میڈیا پر میمز کے ذریعے آگاہی۔
ایک دکان دار جاوید تجویز دیتے ہیں کہ ’اگر سٹیٹ بینک ہر دکان پر ایک پوسٹر لگا دے کہ ’75 روپے چلتا ہے‘ تو شاید ہم اسے قبول کر لیں۔ لیکن جب تک یہ ہچکچاہٹ ختم نہیں ہوتی، 75 روپے کا نوٹ پاکستانی عوام کی ’نئی چیزوں میں عدم دلچسپی‘ کی داستان بنا رہے گا۔
ترجمان سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بھرپور مہم چلائی گئی ہے اور تمام بینکوں کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بلڈنگز میں خاص طور پر اے ٹی ایم مشینز پر اشتہار لگائیں کہ یہ قانونی نوٹ ہے۔
’اس کے علاوہ بھی اگر کوئی یہ نوٹ لینے سے انکار کرے تو سٹیٹ بینک کو اس کی شکایت لگائی جائے۔‘