Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کا غزہ میں ’خوراک کی ضروری مقدار‘ کے داخلے کی اجازت دینے کا اعلان

اسرائیل نے غزہ میں دو مارچ سے انسانی امداد کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی تھی (فوٹو:اے ایف پی)
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً تین ماہ کی ناکہ بندی کے بعد غزہ میں محدود مقدار میں انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دے گا تاکہ قحط کا بحران پیدا نہ ہو۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کی کابینہ نے غزہ میں خوراک کی ’بنیادی‘ مقدار پہنچانے کی اجازت کے فیصلے کی منظوری دی۔
اسرائیل نے 20 لاکھ سے زائد افراد کی آبادی پر مشتمل علاقے میں دو مارچ سے انسانی امداد کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی تھی۔
بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ کچھ امداد کی اجازت دینے سے اسرائیل اپنے نئے فوجی آپریشن کو وسعت دے سکے گا جو سنیچر کو شروع ہوا تھا۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ امداد غزہ میں کب داخل ہو گی، یا کیسے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گا کہ حماس امداد کی تقسیم کو کنٹرول نہ کرے اور امداد حماس کے عسکریت پسندوں تک نہ پہنچے۔
امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی 21 لاکھ کی آبادی قحط کا شکار ہو سکتی ہے۔
اس سے قبل اتوار کو ہسپتالوں اور طبی عملے نے بتایا کہ اسرائیل کے فضائی حملوں میں درجنوں بچوں سمیت کم از کم 103 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
سنیچر کو اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے محصور فلسطینی علاقے غزہ پر ’بڑے پیمانے پر حملے‘ شروع کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے ٹیلی گرام پر عربی زبان میں ایک بیان میں کہا کہ ’یہ حملے غزہ کی پٹی میں جنگ کی توسیع کا حصہ ہیں جن کا مقصد مغویوں کی رہائی اور حماس کی شکست سمیت جنگ کے تمام مقاصد کو حاصل کرنا ہے۔‘
اسرائیل حماس پر ایک عارضی جنگ بندی پر رضامندی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے جس سے غزہ سے یرغمالیوں کو آزاد کیا جائے لیکن ضروری نہیں کہ جنگ ختم ہو۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی معاہدے کے حصے کے طور پر اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء اور جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔

بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ کچھ امداد کی اجازت دینے سے اسرائیل اپنے نئے فوجی آپریشن کو وسعت دے سکے گا (فوٹو: اے ایف پی)

جبلیہ کے رہائشی ابو محمد یاسین نے کہا کہ ’جب یہودی جنگ بندی چاہتے ہیں تو حماس انکار کر دیتی ہے اور جب حماس جنگ بندی چاہتی ہے تو یہودی انکار کر دیتے ہیں۔ دونوں فریق فلسطینی عوام کو ختم کرنے پر راضی ہوتے ہیں۔ خدا کے واسطے، ہم پر رحم کریں، ہم بے گھر ہو کر تھک چکے ہیں۔‘
ثالثی کرنے والے مصر اور قطر نے، جنہیں امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے، سنیچر کو دونوں فریقوں کے درمیان بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات کا ایک نیا دور شروع کیا، لیکن مذاکرات کاروں کے قریبی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
برطانیہ کی سکائی نیوز عربیہ اور بی بی سی نے گزشتہ رات رپورٹ کیا کہ حماس نے دو ماہ کی جنگ بندی اور اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اپنے پاس موجود اسرائیلی یرغمالیوں میں سے نصف کو رہا کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
روئٹرز کے رابطہ کرنے پر حماس کے ایک اہلکار نے کہا کہ ’اسرائیل کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، وہ جنگ کے خاتمے کے عزم کے بغیر اپنے قیدیوں کو رہا کرنا چاہتے ہیں۔‘

 

شیئر: