Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ نے شام پر عائد پابندیاں اُٹھا لیں، ’سہولیات کی فراہمی میں آسانی ہو گی‘

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مطالبے پر امریکی صدر نے شام سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ٹرمپ انتظامیہ نے شام پر پابندیوں میں نرمی کے لیے پہلا قدم اُٹھاتے ہوئے خانہ جنگی کا شکار ملک کو پابندیوں سے بڑے پیمانے پر استثنیٰ دے دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعے کو اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ استثنیٰ ’بجلی، توانائی، پانی اور صفائی کی سہولیات کی فراہمی کو آسان اور شام بھر میں زیادہ مؤثر انسانی امداد کی فراہمی کو ممکن بنائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صدر نے اپنی واضح توقع ظاہر کی ہے کہ ریلیف اہم پالیسی ترجیحات پر شامی حکومت کی طرف سے فوری کارروائی کے بعد ملے گا۔‘
امریکہ کے سٹیٹ اینڈ ٹریژری ڈیپارٹمنٹ نے 2019 میں کانگریس کی جانب سے عائد کچھ پابندیاں چھ ماہ کے لیے ہٹا لی ہیں۔ شام میں غیر ملکی کاروبار کیا کر سکتے ہیں اس حوالے سے امریکی قوانین میں توسیع کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مطالبے پر امریکی صدر نے شام سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے ریاض میں اعلان کیا تھا کہ وہ ترکیہ اور سعودی عرب میں ان کے اتحادیوں کے مطالبے پر بشارالاسد دور کی ’سفاکانہ‘ پابندیاں ہٹا رہے ہیں۔
 ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ شام کے لیے چمکنے کا وقت ہے اور پابندیاں نرم کرنے سے اس کو اچھے مواقع ملیں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ جمعے کے اعلانات ’پابندیوں کو مکمل طور پر ہٹانے کے لیے امریکی حکومت کی وسیع تر کوششوں کا صرف ایک حصہ ہیں۔‘

صدر ٹرمپ نے ریاض میں اعلان کیا تھا کہ وہ بشارالاسد دور کی ’سفاکانہ‘ پابندیاں ہٹا رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

شام کے شہریوں اور ان کے حامیوں نے پابندیوں میں ریلیف کا جشن منایا تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں مستقل طور پر ہٹانے کی ضرورت ہے تاکہ جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے لیے درکار اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور کاروبار کو محفوظ بنایا جا سکے۔
یہ پابندیاں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی حمایت، کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام اور شہریوں کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے کئی دہائیوں کے دوران شام کے سابق حکمرانوں پر عائد کی گئی تھیں۔
امریکہ نے شام میں خانہ جنگی کے دوران ملک پر پابندیاں عائد کی تھیں اور مالی لین دین پر بھی پابندی لگائی تھی اور واضح بھی کیا تھا کہ جب تک بشارالاسد کو ان کے جرائم کے لیے جوابدہ نہیں ٹھہرایا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ امریکہ شام کو اس کی بلیک لسٹ سے بھی نکال دے گا جس میں اس کو فلسطینی عسکریت پسندوں کی حمایت پر 1979 میں ڈالا گیا تھا اور یہ چیز سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
اسی طرح دوسری مغربی طاقتیں پہلے سے ہی شام پر سے پابندیاں ہتا چکی ہے جن میں یورپی یونین بھی شامل ہے، تاہم امریکہ اپنی شرائط پر سختی سے قائم رہا تھا۔

 

شیئر: