Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

العلا کے راوی مؤرخ جو صدیوں پرانی داستانیں سناتے ہیں

الجوھرہ کے لیے داستان گوئی، پروفیشن یا کام نہیں بلکہ یہ ان کا مشن ہے (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کے شہر العلا کے لازوال منظر نامے پر، اس شہر کی کہانیاں پہاڑوں پر نہ صرف لکھی اور کُھدی ہوئی ہیں بلکہ یہ داستانیں لوگوں کے دلوں میں بھی بسی ہوئی ہیں جو آوازوں کے ذریعے دوسروں تک پہنچتی ہیں۔
الجوھرہ ابراہیم عبدالکریم، العلا کے رائل کمیشن میں ورثے، ثقافت اور ایونٹس کے محکمے میں ایسی ہی داستانوں کو محفوظ بھی کرتی ہیں اور انھیں دوسروں تک شیئر بھی کرتی ہیں۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے الجوھرہ ابراہیم عبدالکریم نے کہا ’کئی برس پہلے میں ٹوئر گائیڈنگ کے کورس منعقد کیا کرتی تھی پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسی میدان میں کیریئر شروع کیا جائے۔‘
’میں نے العلا میں آنکھ کھولی تھی اور یہیں پلی بڑھی تھی۔ چنانچہ میں اپنے والدین اور اقربا سے العلا کے قدیم شہر کی کہانیاں سنتے ہوئے بڑی ہوئی۔ اس وجہ سے میں اس جگہ کی تاریخ کو بہتر سمجھتی ہوں اور دوسروں سے بہتر جانتی ہوں۔
الجوھرہ کے لیے داستان گوئی، پیشہ یا کام نہیں بلکہ یہ ان کا مشن ہے۔ العلا سے گہری نسبت کی وجہ ان کی بتائی ہوئی کہانیاں مستند ہیں جن میں علمی بصیرت کی جھلک بھی ہے جو وہ سیاحت کےدوروں میں سربراہ گائیڈ کے طور پر سناتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’عمر بھر یہیں العلا میں رہی ہوں۔ یہاں گزشتہ برسوں میں جو حیران کن تبدیلیاں آئیں ہیں میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘

دادان اور الحجر جیسی قدیم سائٹس پر تحقیق کا کافی کام ہوا ہے (فوٹو: عرب نیوز)

’بطور راوی، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس مقام کا مستقبل کتنا زبردست ہوگا اور ایک زمانے میں اس جگہ کا کوئی ثانی نہیں ہوگا، چنانچہ ان تمام تجربات نے العلا کے بارے میں میری کہانیوں کو ایسی جزیات سےمالا مال کر دیا ہے جو دوسرے کے پاس نہیں۔‘
عرب ثقافت میں راوی کا کردار ہمیشہ بہت اہم رہا ہے جو کبھی شاعری تو کبھی داستانیں سنانے والے ہوا کرتے تھے۔
الجوھرہ کو تین زبانیں آتی ہیں۔ عربی ان کی مادری زبان ہے لیکن انھیں انگریزی اور فرانسیسی پر بھی عبور ہے۔ وہ راویوں کی اُس نسل کی نمائندگی کرتی ہیں جو آنے والے وقتوں میں اپنے آباؤ اجداد کی داستانیں لوگوں کو دکھائے گی اور سنائے گی۔
وہ کہتی ہیں ’میں نے العلا میں انگریزی سیکھنا شروع کی پھر مجھے العلا کے طالب علموں کے لیے مخصوص ایک سکالر شپ پر فرانس جانے کا موقع ملا۔ وہاں میں نے فرانسیسی زبان سیکھی اور ’بین الاقوامی مسافر نوازی مینجمنٹ‘ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔‘

عرب ثقافت میں راوی کا کردار ہمیشہ بہت اہم رہا ہے (فوٹو :عرب نیوز)

بیرونی ممالک سے سعودی عرب آنے والوں کے ساتھ بات کر سکنے کی صلاحیت، ان کا اہم اثاثہ بن گئی اور بقول ان کے ’میں تین زبانوں پر مہارت رکھتی ہوں اور ان کی روای ہوں لہذا مجھے العلا آنے والے مختلف سیاحوں کو بہتر سمجھنے اور ان کی ضرورت کے مطابق سوالات کے جواب دینے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں ان کے ساتھ العلا کی سپیشل کہانیں شیئر بھی کرتی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں ’مجھے بیرونِ ملک اور مملکت میں منعقد ہونے والی کئی کانفرنسوں اور مہمات میں اپنے ساتھیوں سمیت العلا کی نمائندگی کا موقع ملا ہے جس کی وجہ سے لوگوں سے میرے میل جول میں وسعت اور زیادہ کشادہ ہوئی ہے۔
دادان اور الحجر جیسی قدیم سائٹس پر تحقیق کا کافی کام ہوا ہے لیکن الجوھرہ ابراہیم عبدالکریم العلا کے بارے میں حقائق منظرِ عام پر لانے میں بڑی پُرجوش ہیں۔ وہ خاص طور پر یہاں کی انسانی کہانیاں سنانا چاہتی ہیں، بالخصوص العلا کے قدیم شہر کی کہانیاں۔

الجوھرہ  کے نزدیک ’العلا  ایک بیش قیمت نگینہ ہے (فوٹو: عرب نیوز)

وہ کہتی ہیں ’مختلف قدیم تہذیبوں کے بارے میں بہت سی تاریخی معلومات اور ریسرچ موجود ہے، خاص طور پر دادان اور الحجر جیسی سائٹس کے بارے میں۔ لیکن اگر العلا کے قدیم شہر کی بات کریں، تو ہم عصر تاریخ کےحوالے سے صورتِ حال کافی مختلف ہے۔
جو بات ان کی قصہ گوئی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ الجوھرہ سوچ سمجھ کر درست تاریخی حقائق اور یادداشت پر مبنی باتوں کو ملا کر کہانی سناتی ہیں لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ تاریخی حقائق اور ان کی ذاتی باتیں ایک دوسرے میں مل جل نہ جائیں بکہ اپنی اپنی الگ حیثیت برقرار رکھیں۔’جو  لوگ کھبی وہاں رہا کرتے تھے، وہ آج بھی ہمارے ساتھ ہیں اور اپنے لفظوں میں وہاں کی باتیں بتا سکتے ہیں۔

العلا میں ماضی فراموش ہو چکا  اس کے بارے میں بات ہوتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

الجوھرہ  باقاعدگی سے دیگر کمیونٹیوں کے ارکان کو بھی وہاں آنے کی دعوت دیتی ہیں جو سیاحوں کو اپنی اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ اس طرح وہ لوگ اپنی کہانیاں شیئر کر کے ہماری مدد کر رہے ہوتے ہیں اور العلا کی وسیع تاریخ سیاحوں کے سامنے رکھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔
مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ’ رمضان کے مہینے میں ایسے ہی ایک ٹوئر میں ان کے والد نے سیاحوں کو بتایا کہ پرانے شہر کے لوگ، رمضان کا مہینہ کس طرح گزارا کرتے تھے۔ ان کے روزانہ کے معمولات کیا ہوتے تھے، وہ کس طرح کے کھانے تیار کیا کرتے تھے، ان کا کام کیا تھا اور انھیں کونسی روایات بہت پسند تھیں۔ ’اس طرح ہمارے محترم مہمانوں کو ایک بے مثل، حقیقت پسندانہ اور ذاتی نوعیت کے تجربے کا علم بھی ہوتا ہے۔
میراث کو اس طرح محفوظ کرنا اور پیش کرنا کہانیاں سنانے سے کہیں آگے کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ باتیں ایک ثقافتی ورثہ ہیں اور زندہ آواز ہیں۔

 یہ کہانیاں پہاڑوں پر نہ صرف لکھی اور کُھدی ہوئی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

اپنے ورثے کو لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہے تاکہ آپ اسے تاریخ میں کھو جانے سے بچا سکیں۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ورثے کے عناصر بسا اوقات غیر محسوس نوعیت کے ہوتے ہیں۔
الجوھرہ  کے نزدیک ’العلا ہمارے لیے ایک بیش قیمت نگینہ ہے اور شہر کی میراث کو بچانا نہ صرف ماضی کو سلامت رکھنے کے مترادف ہے بلکہ یہ ہمارے حال کو محفوظ رکھتا ہے اور ہمارے مستقبل کی شکل متعین کرتا ہے۔
العلا میں ماضی فراموش ہو چکا ہے۔ اس کے بارے میں بات ہوتی ہے، اس کے متعلق سُنا جاتا ہے اور اسے آئندہ نسلوں تک منتقل کیا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے عبدالکریم الجوھرہ  جیسی آوازیں اور ان کی کہانیاں ہمارے پاس موجود ہیں۔۔۔جن میں سے کچھ اتنی ہی قدیم ہیں جتنا کہ وقت۔۔۔۔مگر ان کہانیوں کو نئی نسل پھر بھی سن رہی ہے اور سنتی رہے گی۔

 

شیئر: