Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈی پورٹ ہو کر آنے والے پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک سفر پر پانچ سال کی پابندی

وزیر داخلہ محسن نقوی نے یورپی ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق ایسے شہریوں کے خلاف مقدمات درج کرنے اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی پر دوسرے ممالک سے ڈی پورٹ کیے جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے وزارت داخلہ میں ایک اعلٰی سطح کے اجلاس ہوا جس کی صدارت وزیر داخلہ محسن نقوی نے کی ہے۔ اس نئے ضابطے کا اطلاق تمام ممالک سے ڈی پورٹ کیے جانے والے شہریوں پر ہوگا۔
اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا  کہ ڈی پورٹ کیے جانے والے افراد کا نام بھی 5 سال کے لیے پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جائے گا اور ان پر بین الاقوامی سفر کرنے کی پابندی عائد ہو گی۔
ترجمان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ’یہ فیصلہ بیرون ملک غیر قانونی طور پر سفر کی روک تھام کے لیے جا رہا ہے۔ اور اس کا اطلاق فوری طور پر کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔ جب کہ یہ کمیٹی پاسپورٹ قوانین مین مزید بہتری لانے کے لیے تجاویز بھی فراہم کرے گی جن پر عمل درآمد کیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ ملک کی وزارت داخلہ کا یہ فصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب اس سے پہلے وزیر داخلہ محسن نقوی نے مختلف ممالک خاص طور پر یورپی ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
ان ملاقاتوں کے بھی ایسے بیان جاری کیے گئے ہیں کہ غیرقانونی سفر کرنے والوں کے خلاف شکنجہ سخت کیا جائے گا۔
تو کیا ایسے افراد بھی اس نئے ضابطے کی زد میں آئیں گے جو خود جعلی ویزوں سے متاثر ہوتے ہیں؟ اس معاملے پر وزارت داخلہ حکام کا کہنا ہے کہ ’اس قانون کا اطلاق کیس ٹو کیس ہو گا۔ ایف آئی اے کے امیگریشن ونگ کے پاس تمام ٹریول ریکارڈ ہوتا ہے۔ اس لیے صرف ایسے لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی جو جان بوجھ کر اس فراڈ کا حصہ بنتے ہیں۔ ایسے افراد اس زد میں نہیں آئیں گے جن کا ویزہ درست ہے لیکن کسی اور وجہ سے انہیں ڈی پورٹ کیا گیا ہو۔‘
خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی ملک کی وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی سفارش پر ایسے بہت سے شہریوں کے نام پاسپورٹ کنٹرول فہرست میں ڈالے ہیں جو بار بار ڈی پورٹ ہوئے ہیں اور غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر گئے تھے۔

رواں سال متعدد ملکوں سے سینکڑوں پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

گوجرانوالہ کے رہائشی محمد آصف ان افراد میں شمار ہوتے ہیں جن کا نام سٹاپ لسٹ میں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں تین سال پہلے غیرقانونی طریقے سے باہر گیا تھا اور پھر میں ڈی پورٹ ہو کر واپس آیا۔ اب میں نے اپنا کام یہیں شروع کیا ہے اس سال میرا عمرے کا پلان تھا۔ خیال تھا کہ حج کے بعد جاؤں گا لیکن میرا پاسپورٹ ہی رینیو نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں اب دو سال بعد دوبارہ آنا۔‘
امیگریشن قوانین پر دسترس رکھنے والے بیرسٹر اسلم شیخ کہتے ہیں کہ ’ایسے افراد جو غیرقانونی طور پر ملک سے باہر جاتے ہیں اگر حکومت ان کے خلاف کوئی ایسا سخت قانون بناتی ہے کہ ان کے سفر کرنے پر پابندی عائد کرے تو ایسا ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ قانون عدالت میں چیلنج بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ آئین کی بنیادی روح سے متصادم بھی ہے جو آزادانہ نقل و حمل کی گارنٹی دیتا ہے۔ اور اس کی تشریح پھر عدالت کرے گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اب پوری دنیا میں امیگریشن قوانین میں سختی آ رہی ہے، اور خاص طور پر مغرب اس بارے میں اب بہت متحرک ہو چکا ہے۔ اس لیے بھی ترقی پذیر ممالک کو اپنے قوانین ان کے منشا کے مطابق تبدیل کرنا پڑ رہے ہیں۔‘  

شیئر: