سعودی عرب نے جاپان کے شہر اوساکا میں جاری ’ایکسپو 2025‘ کے ذریعے سعودی جاپان تعلقات کی کہانی بیان کی ہے۔
ایک لائیو پرفارمنس میں جس کا عنوان ’ٹیلز آف دا سی‘ یعنی سمندر کی کہانیاں تھا۔ اوساکا نمائش میں سعودی پویلین، جاپان اور سعودی عرب کے درمیان بحری سفر کی روایات کو سامنے لے آیا۔
مزید پڑھیں
-
جاپان: ایکسپو 2025 اوساکا میں سعودی پویلین کا افتتاحNode ID: 888347
-
سعودی عرب کی اوساکا ایکسپو میں شرکت، ڈیجیٹل ترقی کو متعارف کرایاNode ID: 889862
اس لائیو شو میں جن روایات پر خاص طور پر توجہ رہی ان میں سمندر سے موتی تلاش کرنا، صبر کی اہمیت اور شاعری خاص موضوعات تھے جس میں اشتراک کی وجہ سے دونوں ملک گہرے ثقافتی بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔
سعودی کورٹ یارڈ تھیٹر میں ہونے والی اس پرفارمنس میں، شو کا محور خلیج کے ایک روایتی گلوکار تھے جن کا کردار سمندر سے موتی تلاش کرنے والے ان غوطہ غوروں کو اپنی آواز سے تحریک دیتے رہنا تھا جو کئی ماہ تک سمندروں میں رہتے تھے۔
جاپان کی آما غوطہ خور، جو سمندر میں غوطہ خوری میں مہارت رکھنے والی خواتین تھیں، شو میں ان کی صلاحیتوں اور ان کو درپیش خطرات کا بھی بہت ذکر رہا۔
پرفارمنس میں اس سعودی غوطہ خور کی کہانی بیان کی گئی جو سب سے بڑے موتی کی تلاش میں چھ ماہ تک سمندر میں رہا۔ اس کہانی کو بیان کرنے کے لیے بصری اثر بڑھانے کی خاطر تصاویر اور دیگر بصری مواد کو کام میں لایا گیا اور 13 میٹر بلند پانچ دیواروں کو استعمال کیا گیا۔
نمائش میں انٹرایکٹیو افراد و مواد نے جن میں غوطہ خوری کے آلات اور ثقافتی صناعی کے قدیم نمونوں بھی تھے، نمائش دیکھنے والوں کو اپنی طرف بھرپور متوجہ کیا اور یوں روایت اور جاپان و سعودی عرب کے بیچ سمندری وراثت کے موضوع پر گفتگو کا آغاز ہو گیا۔

اس گفتگو میں عام لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں دو ثقافتوں کے غیر متوقع مگر متوازی موازنے تھے۔
شو کی وجہ سے دونوں ممالک کی سمندر سے جڑی ہوئی یادیں لوگوں کے سامنے آ گئیں۔ خلیج کی غنائیت اور لحن جبکہ روایتی جاپانی موسیقی نے مل کر ان لمحات کو چار چاند لگا دیے۔
اوساکا نمائش میں سعودی پویلین جو اس نمائش میں جاپانی پویلین کے بعد دوسرا سب سے بڑا پویلین ہے، چھ ماہ کے عرصے میں سات سو سے زیادہ ایونٹس منعقد کرے گا جن میں موسیقی، کنسرٹ، فلمیں اور داستان گوئی جیسی پرفارمنسز ہوں گی۔
’ٹیلز آف دا سی‘ یا ’سمندر کی کہانیاں‘ سے یہ بات انتہائی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ ثقافی تبادلہ کس طرح با معنی اور یادگار ہو سکتا ہے۔