ریئل اسٹیٹ بحران، پاکستان کے بڑے شہروں میں مکانات اور پلاٹوں کی قیمتیں کم کیوں ہو رہی ہیں؟
ریئل اسٹیٹ بحران، پاکستان کے بڑے شہروں میں مکانات اور پلاٹوں کی قیمتیں کم کیوں ہو رہی ہیں؟
ہفتہ 31 مئی 2025 5:40
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
ریئل اسٹیٹ کاروباریوں کے مطابق لوگوں کی قوتِ خرید متاثر ہوئی ہے۔ فائل فوٹو: گارڈنز سوسائٹی فیس بک پیج
سنہ 2022 میں بیرون ملک مقیم اکبر علی نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے نواح میں ایک ہاؤسنگ سکیم میں 45 لاکھ روپے کا پلاٹ خریدا تو ان کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ پاکستان واپسی پر وہ یہ پلاٹ بیچیں گے اور اپنے آبائی علاقے میں ایک بڑا سا گھر تعمیر کر کے بقیہ زندگی وہاں بسر کریں گے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ 45 لاکھ کا یہ پلاٹ چند ہی مہینوں میں تقریباً دگنی قیمت پر فروخت ہوگا۔
سوسائٹی کے بروشرز میں سبزہ، صاف سڑکیں، سکول اور پارک دکھائے گئے تھے اور ڈویلپرز نے وعدہ کیا تھا کہ دو سال میں ترقیاتی کام مکمل ہو جائے گا۔ مگر اب تین سال بعد نہ تو وہاں سڑک بنی ہے نہ بجلی آئی ہے، اور نہ ہی پلاٹ کی قیمت میں کوئی اضافہ ہوا ہے۔
پراپرٹی ڈیلر نے انہیں بتایا ہے کہ اگر وہ اب بیچنا چاہیں تو شاید 30 لاکھ بھی نہ ملیں۔
یہ صرف اکبر علی کی کہانی نہیں بلکہ ہزاروں اوورسیز پاکستانیوں اور مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔
پاکستان کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ جو ایک وقت میں ملکی معیشت کا متحرک اور منافع بخش ترین شعبہ تصور کی جاتی تھی اب جمود کا شکار ہے۔ کچھ شہروں میں مکانات اور پلاٹوں کی قیمتیں گزشتہ دو برسوں میں 10 سے 15 فیصد تک گر چکی ہیں۔ بڑے شہر جو پہلے سرمایہ کاری کا مرکز ہوا کرتے تھے اب وہاں خریدار اور سرمایہ کار دونوں ہاتھ روک کر بیٹھے ہیں۔
اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں عمومی رجحان جمود اور سست روی کا ہے۔ کراچی میں ڈیفنس، کلفٹن اور بحریہ ٹاؤن جیسے علاقوں میں کچھ حد تک قیمتیں مستحکم ہیں، تاہم درمیانے درجے کی آبادی والے علاقوں میں قیمتوں میں 10 سے 15 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
لاہور میں ڈی ایچ اے، بحریہ اور گلبرگ جیسے علاقوں میں اگرچہ قیمتوں میں استحکام ہے لیکن خریداروں کی سرگرمی کم ہو گئی ہے۔ اسلام آباد میں خاص طور پر آئی ایٹ، جی ٹین، اور بحریہ انکلیو جیسے علاقوں میں مارکیٹ جمود کا شکار ہے، جہاں بروکرز کا کہنا ہے کہ ’ایک وقت میں روزانہ دس سے پندرہ کالز موصول ہوتی تھیں، وہ اب ہفتوں تک خاموشی رہتی ہے۔‘
اس حوالے سے پراپرٹی ایڈوائزر عاطف مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ 'ملک بھر میں پراپرٹی مارکیٹ میں بحران یا جمود صرف اور صرف حکومتی پالیسیوں، معاشی یا سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ نہیں بلکہ سرمایہ کاروں اور بلڈرز کی جانب سے بے ہنگم تعمیرات اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تشکیل بھی شامل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ 10 سال میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے گرد و نواح میں بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں 50 فیصد بھی ایسی نہیں جہاں گھروں کی تعمیر اور رہائش مکمل ہوئی ہو۔‘
’جب ہاؤسنگ سوسائٹیاں آباد نہیں ہوتیں تو ایک خالی پلاٹ کب تک قیمت بڑھنے کا باعث بنتا رہے گا؟ بلکہ ایک وقت آتا ہے کہ اس کی قیمت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔‘
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فائل فوٹو: فضائیہ سوسائٹی فیس بک پیج
اس حوالے سے اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میرے اپنے ڈی ایچ اے میں پلاٹ، جو کبھی تین کروڑ تک پہنچے ہوئے تھے، اب ڈیڑھ کروڑ تک آ گئے ہیں۔‘
عاطف مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ’صرف رہائشی پلاٹس ہی جمود کا شکار نہیں ہیں بلکہ کمرشل پراپرٹی بھی اس وقت جمود کا شکار ہے، اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کمرشل پلازے بنانے والوں نے مارکیٹ کی ضروریات کو سامنے ہی نہیں رکھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اسلام آباد میں سینٹورس مال، راولپنڈی اور اسلام آباد دونوں کے شہریوں کی ضروریات کو پوری کر رہا تھا تو اس کے ساتھ ایک صفا مال بھی بن گیا۔ اس کے علاوہ جس جس نے بھی جہاں جہاں مالز بنائے وہ آدھے سے زیادہ خالی پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ہر آنے والی نئی سوسائٹی ایک بڑا کمرشل ایریا چھوڑ دیتی ہے جو شاید ہی کبھی پورا ہوا ہو۔‘
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی مالیاتی پالیسی کے تحت شرحِ سود 24 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے، جس کا براہِ راست اثر مارگیج فنانسنگ پر پڑا ہے۔ جو متوسط طبقہ کبھی بینک قرضے کے ذریعے گھر خریدنے کی امید رکھتا تھا، آج وہ اس سے مکمل طور پر مایوس ہو چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس بحران کی بنیادی وجوہات میں ملک میں مہنگائی کی بلند ترین شرح، قرضوں پر بلند سود، اور مسلسل بدلتی ٹیکس پالیسیاں شامل ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق بنیادی شرحِ سود 24 فیصد پر موجود ہے، جس نے نہ صرف ہاؤسنگ فنانس کو مہنگا بنا دیا ہے بلکہ بلڈرز اور عام خریداروں دونوں کے لیے زمین خریدنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریئل اسٹیٹ کے بحران کی کئی پرتیں ہیں۔ صرف قیمتوں کا گرنا ہی مسئلہ نہیں بلکہ لین دین میں نمایاں کمی، نئی تعمیرات کا رُک جانا، بینکوں سے مارگیج فنانسنگ کا تقریباً ناپید ہونا، اور غیررسمی سرمایہ کاری کا اچانک خاتمہ اس بحران کو کئی گنا سنگین بنا رہے ہیں۔
ایک جانب حکومت نے ماضی میں جائیداد کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے، جن میں پراپرٹی کی خریداری پر 'سورس آف انکم' ظاہر کرنا لازم قرار دیا گیا، دوسری جانب ایف بی آر اور نیب نے ہزاروں غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔ بظاہر یہ اقدامات اصلاحات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں مارکیٹ سے وہ سرمایہ غائب ہو گیا ہے جو کبھی اسے چلاتا تھا۔
کراچی میں واقع ایک معروف ریئل اسٹیٹ تجزیاتی ادارے ’زمین اینالیٹکس‘ کے چیف اکانومسٹ علی فاروقی کے مطابق 'پاکستان میں گزشتہ دو سالوں کے دوران پراپرٹی کی اوسط قیمت میں حقیقی بنیادوں پر 12 سے 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
اسلام آباد کے نواح میں سی بی آر کالونی کے مرکزی دروازہ۔ فائل فوٹو
ان کے بقول ’اگرچہ افراطِ زر کے باعث کاغذی قیمتیں وہی دکھائی دیتی ہیں یا معمولی بڑھی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، لیکن خریداروں کی قوتِ خرید شدید متاثر ہوئی ہے اور مارکیٹ میں اصل سرگرمی ختم ہو گئی ہے۔ اس وقت صرف وہی خریداری ہو رہی ہے جو فوری رہائش کی ضرورت سے جڑی ہے۔ سرمایہ کار تقریباً مکمل طور پر پس منظر میں جا چکے ہیں۔‘
تعمیراتی شعبہ جو ملک کی دو سو سے زائد ذیلی صنعتوں کو سہارا دیتا ہے، اس بحران کے نتیجے میں مکمل طور پر جمود کا شکار ہو چکا ہے۔ اینٹوں، سیمنٹ، لوہے، لکڑی، بجلی، پلمبنگ اور مزدوروں پر انحصار کرنے والے اس شعبے کے ہزاروں منصوبے رُک چکے ہیں۔ آل پاکستان بلڈرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد حسین نے بتایا کہ 'ہم نے 2022 کے بعد سے تقریباً 30 فیصد سے زائد منصوبے منسوخ کر دیے یا روک دیے۔ ہماری تنظیم کے رکن تعمیراتی ادارے اب نئی سرمایہ کاری کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔‘
دوسری جانب اسلام آباد کے نواحی بالخصوص دیہی علاقوں جن میں بنی گالہ، ترامڑی، ترلائی، بہارہ کہو، اور اسی طرح لاہور اور کراچی کے نواحی علاقوں میں ذاتی گھروں کی تعمیر کے لیے پلاٹ اور بنے بنائے گھر خریدنے کا رجحان منظم ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نسبت بہتر طریقے سے جاری ہے۔
پراپرٹی ڈیلر فیصل عباسی کے مطابق ’درمیانے اور چھوٹے طبقے کے وہ افراد جو ساری زندگی جوڑ جمع کرتے رہتے ہیں کہ وہ ریٹائرمنٹ یا کسی خاص موقع پر یک مشت رقم کا ایک بڑا حصہ ہاتھ لگنے کے بعد اپنا مکان بنائیں گے یا خریدیں گے، وہ غیرمنظم علاقوں میں مکانات خرید رہے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پراپرٹی کی مجموعی صورتحال کا اثر محسوس نہیں کیا جاتا۔ البتہ مختلف ٹیکسز کی وجہ سے خریداری کی شرح میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ سرمایہ کار بھی اپنی پراپرٹی بیچنے سے کترا رہے ہیں کہ انہیں بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔‘
پاکستان بھر میں ہزاروں غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کے خلاف کارروائی نے ایک اور بحران کو جنم دیا۔ پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کے مطابق صرف پنجاب میں 2023 تک 3,700 غیر منظور شدہ سکیمیں فعال تھیں۔ ان میں سے اکثر میں لاکھوں افراد نے اپنی زندگی کی جمع پونجی لگائی ہوئی تھی۔ ان سکیموں کے خلاف کارروائی سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مزید متزلزل ہو گیا اور نئے پروجیکٹس پر سرمایہ کاری تقریباً رک گئی۔
اوورسیز پاکستانی، جو ماضی میں جائیداد کے سب سے بڑے سرمایہ کار سمجھے جاتے تھےاب ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ سخت قوانین، شناختی عمل کی پیچیدگیاں، منی لانڈرنگ کی روک تھام کی پالیسیاں اور کئی دیگر ضوابط نے ان کے لیے پراپرٹی خریدنا مشکل بنا دیا ہے۔
حکومت نے 2025 سے ڈیجیٹل لینڈ ریکارڈ سسٹم متعارف کروانے کا عندیہ دیا ہے۔ فائل فوٹو: فضائیہ سوسائٹی فیس بک پیج
اس تمام صورتحال میں ٹیکس پالیسیوں کا بوجھ بھی شامل ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس، کیپیٹل گینز ٹیکس، ہولڈنگ ٹیکس، اور رجسٹریشن فیس نے اس شعبے کو مزید دباؤ میں ڈال رکھا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان کا ریئل اسٹیٹ سیکٹر اپنے ہمسایہ ممالک سے کئی سال پیچھے ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان کا ’Registering Property‘ سکور جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے، جو کہ زمین کی ملکیت کے ناقص ریکارڈ اور عدالتی نظام کی سست روی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں آج بھی زمینوں کے کاغذات روایتی طور پر رکھے جاتے ہیں، جس سے نہ صرف دھوکہ دہی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں بلکہ قانونی تنازعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ صورتحال تشویشناک ہے، مگر چند مثبت پہلو بھی موجود ہیں۔ پراپرٹی کی قیمتوں میں کمی نے کچھ خریداروں کے لیے مواقع پیدا کیے ہیں۔ کرایہ داری کی شرح اب بھی 5 سے 6 فیصد کے درمیان ہے جو کہ موجودہ مہنگائی کے تناظر میں ایک معتدل سرمایہ کاری سمجھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے 2025 سے ڈیجیٹل لینڈ ریکارڈ سسٹم متعارف کروانے کا عندیہ دیا ہے جو اگر مؤثر ثابت ہوا تو مارکیٹ میں شفافیت اور اعتماد کی بحالی ممکن ہو سکتی ہے۔
پاکستان انویسٹمنٹ بورڈ کے مشیر برائے ریئل اسٹیٹ پالیسی ڈاکٹر ارحم خان کا کہنا ہے کہ 'ہمیں علاقائی ممالک سے سبق سیکھنا ہوگا۔ مثلاً ملائیشیا اور انڈونیشیا نے ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹس متعارف کروا کر متوسط طبقے کے لیے سرمایہ کاری کے دروازے کھولے۔ پاکستان کو بھی اسی طرز پر کام کرنا ہوگا۔ جب تک فنانسنگ کا نظام قابلِ رسائی، شرحِ سود حقیقی، اور قانونی فریم ورک مضبوط نہیں ہوگا، ریئل اسٹیٹ کا شعبہ بحران سے نہیں نکل سکے گا۔‘