Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیمک: جذبات بھی ہیں اور مسالہ بھی جو ناظرین کو سیٹ سے باندھے رکھے، سونیا حسین

ہارر فلم ’دیمک‘ اس عیدالاضحیٰ پر ملک بھر کے سینما گھروں کی زینت بننے جا رہی ہے، جس کی سٹار کاسٹ کا ماننا ہے کہ یہ فلم پاکستانی سینما کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو گی۔
اُردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فلم کی مرکزی اداکاراؤں ثمینہ پیرزادہ اور سونیا حیسن نے ’دیمک‘ کو ایک منفرد تجربہ قرار دیا، جو جدید ٹیکنالوجی، سنسنی خیز کہانی اور بھرپور تفریح کا امتزاج ہے۔
 دونوں اداکار اس فلم کی کامیابی کے لیے پرامید ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ فلم پاکستانی سنیما کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں دونوں اداکاراؤں نے اس فلم کے علاوہ انڈیا پاکستان کشیدگی پر بات کرتے ہوئے تاسف کا اظہار کیا۔
ثمینہ پیرزادہ نے کہا کہ ’یہ آسمان جو رات کو ہم سب کے سر پر تنا رہتا ہے، یہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ نہ پاکستان کی، نہ انڈیا، امریکہ، چین یا افغانستان کی۔ رات کو جو ستارے ٹمٹماتے ہیں، وہ بھی کسی ویزے یا کسی پاسپورٹ کے محتاج نہیں۔ بس چمکنے کا ہنر آتا ہے تو چمک اٹھتے ہیں۔ اور ہنر اگر نہ ہو، تو ساری رات بھی پڑے رہیں تو انہیں کوئی نہ دیکھے۔‘
’ایسا ہی کچھ فنکاروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ان کا تعلق کسی قوم، کسی سرحد یا کسی زبان سے نہیں ہوتا۔ ان کا تعلق صرف اور صرف فن سے ہوتا ہے۔‘
عام لفظوں میں کہیں تو یہ سادہ سی گفتگو تھی مگر یہ محض الفاظ نہیں تھے بلکہ دہائی تھی۔ ایک فنکار کی، جو اپنی زندگی کے کئی عشرے سٹیج، کیمرے اور سنیما کو دے چکا ہے۔
ثمینہ پیرزادہ کہتی ہیں کہ ’یہ کیا بات ہوئی کہ ہم ایک دوسرے پر آگ کے گولے برسائیں؟ ہم کیوں نا تعلیم، ترقی، اور عوامی فلاح میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں؟‘
ہو سکتا ہے یہ جملہ رسمی سا محسوس ہو۔ لیکن جس لہجے میں وہ یہ کہتی ہیں، اس میں ایک تھکن بھی ہے اور التجا بھی۔ تھکن اس ماحول سے جس میں فنکار کو دیوار کے ساتھ دھکیل دیا گیا ہے۔ اور التجا ان لوگوں سے جو فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا دکھایا جائے، اور کیا نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’فنکار تو ہوا کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، جیسے پرندوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔‘

ثمینہ پیرزادہ نے کہا کہ ’یہ میری پہلی ہارر فلم ہے۔ بالکل الگ تجربہ رہا۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

ثمینہ پیرزادہ نے کہا کہ ’فلم انڈسٹری عوام کے بغیر نہیں چل سکتی۔ عوام اگر ساتھ نہ دیں تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عوام کو معیاری، مختلف اور سوچنے پر مجبور کرنے والا مواد دیں۔‘
سچ تو یہ ہے کہ سنیما کسی بھی قوم کی اجتماعی یادداشت کا ایک پرتو ہوتا ہے۔ اور ہم وہ قوم ہیں جو یادداشت کو وقتاً فوقتاً مٹا کر نئے سرے سے بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی انڈین فلمیں بین، کبھی اپنے فنکاروں پر پابندیاں۔ کبھی فحاشی کے نعرے۔ لیکن جو چیز کہیں نظر نہیں آتی، وہ ہے معیاری مواد، جس کی ثمینہ پیرزادہ بات کر رہی ہیں۔
پھر ان کی فلم ’دیمک ‘کی بات نکلی، ثمینہ پیرزادہ کہتی ہیں کہ ’یہ میری پہلی ہارر فلم ہے۔ بالکل الگ تجربہ رہا۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ایسی فلم بنائیں جو عالمی معیار کی ہو۔ تکنیکی تفصیل پر سمجھوتہ نہیں کیا، اس کا تکنیکی کام کینیڈا سے کروایا، اور کہانی بھی دل سے جڑی ہوئی ہے۔‘
ثمینہ پیرزادہ کہتی ہیں کہ ’اس فلم کو لے کر دنیا بھر میں جانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے کام کو بہتر سے بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اچھا کام ہوگا، تو عوام خود سینما میں آئیں گے۔ اور جب عوام آئیں گے، تو نئے ستارے بھی ابھریں گے۔ یوں پاکستان کا ایک نیا، مثبت چہرہ دنیا کو دکھایا جا سکتا ہے۔‘
بس اتنی سی بات ہے۔ نہ کوئی نعرہ، نہ کوئی وعدہ۔ صرف ایک خواہش کہ ستارے سانجھے ہوں، اور سنیما بھی۔
فنکار کے لیے ضروری ہے وہ اندرونی طور پر بھی کہانی سے جڑا ہوا ہو: سونیا حسین

سونیا حسین  کا کہنا ہے کہ وہ چاہے کسی بھی پراجیکٹ میں ہوں، کوالٹی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتیں (فوٹو: سکرین گریب)

فلم ’دیمک‘ میں پاکستانی ادارہ سونیا حسین بھی ایک اہم کردار میں نظر آئیں گی۔ انہوں نے اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک فنکار کی اصل پہچان اس کی محنت، تکنیکی باریکیوں پر گرفت اور اپنی اقدار پر سمجھوتہ نہ کرنے سے ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ چاہے کسی بھی پراجیکٹ میں ہوں، کوالٹی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جب کوئی کردار یا کہانی ہاتھ میں آتی ہے تو میں سب سے پہلے یہ دیکھتی ہوں کہ کیا یہ میرے جذبے اور مزاج کے ساتھ جڑتی ہے یا نہیں۔‘ ان کے مطابق ایک فنکار کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف سکرین پر نہیں بلکہ اندرونی طور پر بھی کہانی سے جڑا ہوا ہو۔
سونیا کا کہنا تھا کہ وہ ایسی فلم میں کام کرنا پسند کرتی ہیں جس میں تکنیکی تفصیل، گہرائی اور چیلنج ہو۔ بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سین چھوٹا سا لگتا ہے، لیکن تکنیکی لحاظ سے اگر مکمل نہ ہو تو پورے پراجیکٹ پر اس کا اثر پڑتا ہے۔
اداکاری کے ساتھ ساتھ سونیا عالمی فلم انڈسٹری میں بھی قدم رکھنے کا خواب رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر عرب انڈسٹری یا کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم سے کوئی مضبوط اور معیاری پیشکش آئی تو میں ضرور کام کرنا چاہوں گی۔‘
ان کے مطابق فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، صرف نیت، معیار اور سچائی ہونی چاہیے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں عالمی معیار کی فلم یا ڈراما بنانا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب سونیا نے پراعتماد انداز میں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہر شعبے میں اگر باریکیوں پر توجہ دی جائے، اور حقیقی زندگی سے کرداروں اور کہانیوں کو لے کر فلم بنائی جائے تو لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اگر اچھی فلمیں بنیں گی تو ہمارے یہاں بھی انڈسٹری کو وہی مقام حاصل ہو سکتا ہے جو دنیا بھر میں اسے حاصل ہے۔‘

سونیا حسین کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک ہارر فلم نہیں بلکہ ایک مکمل فلمی تجربہ ہے (فوٹو: سکرین گریب)

سونیا حسین کا شمار اُن فنکاروں میں ہوتا ہے جو محض شہرت یا سکرین ٹائم کے لیے نہیں بلکہ مؤثر کہانی اور بھرپور کرداروں کے ذریعے ناظرین تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
سونیا کہتی ہیں کہ انہیں جلدی نہیں، وہ وہی کام کرتی ہیں جس میں کچھ نیا ہو اور جس میں کچھ کہنے کو ہو۔
سونیا ’فلم‘ دیمک کو اپنے اسی وژن کا تسلسل قرار دیتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دیمک ایک ہارر فلم ہے جسے انہوں نے منفرد، تکنیکی لحاظ سے جدید اور جذباتی طور پر اپنے دل کے قریب پایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف ایک ہارر فلم نہیں بلکہ ایک مکمل فلمی تجربہ ہے۔ کہانی میں جذبات بھی ہیں اور مسالہ بھی، اور وہ سنسنی بھی جو ناظرین کو اُن کی سیٹ سے باندھے رکھے گی۔‘
سونیا کا ماننا ہے کہ ’دیمک جیسے پراجیکٹ پاکستانی سینما کو صرف مقامی سطح پر ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی فلمی منظرنامے میں بھی نمایاں کر سکتے ہیں۔‘

 

شیئر: