امریکہ میں ایک شخص نے ہجوم پر پیٹرول بم پھینک دیے جس کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہو گئے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق واقعہ بولڈر کے علاقے کولوراڈو میں پیش آیا۔
ایف بی آئی کے مطابق ’اقدام کی تحقیقات دہشت گردی کی کارروائی کے طور پر کی جا رہی ہیں۔‘
مزید پڑھیں
ایف بی آئی کے سپیشل ایجنٹ مارک میچیلک نے واقعے کے بعد بتایا کہ 45 سالہ مشتبہ حملہ آور کی شناخت محمد صابری سلیمان کے نام سے ہوئی ہے جس کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشتبہ شخص نے حملے سے قبل ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کا نعرہ لگایا اور آگ لگا کر بوتل ہجوم پر پھینک دی۔
رپورٹ کے مطابق یہ حملہ بولڈر کے اس مشہور مال میں ہوا جہاں ’رن فار دی لائف‘ نامی رضاکار گروپ کے کارکن اور مظاہرین جمع تھے اور غزہ میں قید یرغمالیوں کے معاملے کو اجاگر کر رہے تھے کیونکہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ عالمی تناؤ میں اضافہ کر رہی جبکہ امریک میں سام دشمنی بھی بڑھی ہے۔
واقعے کی ویڈیو میں کچھ لوگوں کو چیختے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ ’وہ وہاں موجود ہے اور وہ مولوٹو کاک ٹیلز پھینک رہا ہے۔‘
اس کے ساتھ ایک پولیس اہلکار اپنی بندوق لیے اس مشتبہ شخص کی بڑھتا ہے جس کے ہاتھ میں کنٹینر موجود ہیں۔
زخمی ہونے والے افراد میں کچھ زیادہ جبکہ بعض افراد کم زخمی ہیں جبکہ حملہ آور خود بھی زخمی ہوا جس کو ہسپتال لے جایا گیا تاہم حکام کی جانب سے اس کے زخموں کی نوعیت کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔
یہ واقعہ واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے اہلکاروں پر فائرنگ کے دو ہفتے بعد ہوا ہے جس میں شکاگو سے تعلق رکھنے والے حملہ آور کو جب پولیس نے پکڑا تو اس کا کہنا تھا کہ ’میں نے یہ فلسطین اور غزہ کے لیے کیا۔‘
ایف بی آئی کے حکام کا کہنا ہے کہ بولڈر کے واقعے کو دہشت گردی کی کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ محکمہ انصاف نے اس کو ’تشدد کا ایک غیرضروری اقدام‘ قرار دیا ہے۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر ڈین بونگینو نے ایکس پر ایک پوسٹ پر لکھا کہ ’ابتدائی معلومات کے بعد اقدام کی تفتیش نظریاتی طور پر تشدد پر ابھارنے والے عمل کے طور پر کی جا رہی ہے۔‘
غزہ میں جنگ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے جواب میں شروع ہوئی تھی، اس حملے میں 12 سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے اور اس موقع پر 250 افراد کو یرغمال بھی بنایا گیا تھا، جن میں سے 58 اب بھی قید ہیں۔
ان میں سے ایک تہائی تعداد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں جبکہ باقی افراد کو جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب غزہ کی شعبہ صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں میں اب تک 54 ہزار کے قریب فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی حملوں نے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور 90 فیصد لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔