Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں پاکستانی ٹیم ماڈرن کرکٹ کھیل کر فاتح بنی: عامر خاکوانی کا کالم

پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایسے فاتحانہ انداز میں یکطرفہ شکست دی ہے کہ کم ہی پاکستانی شائقین ایسا نظارہ پہلے دیکھ پائے تھے۔
کئی برسوں بعد کسی ٹی20 سیریز میں کلین سوئپ کیا اور ہر میچ واضح مارجن سے جیتا۔ دو میچز میں 200 رنز رنز بنائے جبکہ تیسرے میں 200 کے قریب ہدف یوں حاصل کیا کہ ابھی ڈھائی اوورز باقی تھے، یعنی اگر ہدف سوا دو سو ہوتا تب بھی بن جاتا۔ یہ نہایت خوش آئند ہے۔
ٹاپ آرڈر کی جارحانہ بیٹنگ
اس سیریز میں کئی خوش کن چیزیں ؎ ہوئیں۔ بڑے عرصے کے بعد ہم نے دیکھا کہ ہمارے اوپنرز اور نمبر تین سے پانچ تک کے بلے باز شاندار سٹرائیک ریٹ سے کھیلتے رہے۔ پاکستان کے ٹاپ فائیو بلے بازوں نے اس سیریز میں بہت عمدہ پرفارمنس دی ہے۔
اوپنر صائم ایوب دو میچز میں ناکام ہوئے تاہم تیسرے میچ میں عمدہ بیٹنگ کی، تین بلند و بالا چھکے لگائے اور 156 کے سٹرائیک ریٹ سے 45 رنز بنائے۔ صاحبزادہ فرحان کو دو میچز ملے، ایک میں شاندار جارحانہ اننگ کھیلی، چھ چھکے لگائے اور 180 کے سٹرائیک ریٹ سے 74 رنز بنائے۔ آج کے میچ میں بھی پہلے اوور میں بڑی ہٹ لگائی مگر باؤنڈری پر اچھا کیچ ہوگیا۔
محمد حارث پوری سیریز ون ڈاؤن کھیلے، ایک میں 31، دوسرے میں 41 اور تیسرے میچ میں شاندار سنچری بنا ڈالی، پاکستان کی جانب سے دوسری تیز ترین ٹی20 سنچری بنانے میں صرف ایک گیند کا فرق رہ گیا ورنہ تیز ترین پاکستانی سنچری کا ریکارڈ برابر ہوجاتا۔ حارث کا سٹرائیک ریٹ تینوں میچز میں غیر معمولی رہا۔
حسن نواز نے تینوں میچز میں عمدہ بیٹنگ کی۔ دو میچز میں 200 کے سٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کی جبکہ ایک میں 195 کے سٹرائیک ریٹ سے خوبصورت نصف سنچری کی۔ کپتان سلمان آغا بھی کسی سے کم نہیں رہے، 150 سے زیادہ کے سٹرائیک ریٹ سے اچھی بیٹنگ کی، ایک نصف سنچری شامل تھی اور کل کے میچ میں ناٹ آؤٹ رہے۔
اگر ٹاپ پانچ بلے باز اتنے اچھے سٹرائیک ریٹ سے کھیلیں گے تب ہر میچز میں 200 سے زیادہ رنز بنائے جا سکتے ہیں۔ نمبر چھ، سات، آٹھ والے تو پاور ہٹرز ہوتے ہیں، ان سے اچھا سٹرائیک ریٹ متوقع ہے، لیکن اگر شروع والے ساتھ نہ دیں تو بعد والوں سے بھی نہیں ہوتا۔

پاکستانی بیٹنگ میں نیا کیا شامل ہوا؟
پاکستان کی بیٹنگ میں بہت کچھ نیا اور بہترین شامل ہوا ہے۔ پانچ چھ پوائنٹس نمایاں ہیں۔
نوجوان اور تجربہ کار بلے بازوں کا امتزاج ہے (فخر، سلمان آغا، صائم، فرحان، حارث، حسن نواز، شاداب)
ہر بیٹر پہلی گیند سے جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرتا ہے
وکٹیں گرنے کے بعد بھی رن ریٹ نہیں گرنے دیتے
بیٹرز میں چاروں طرف بڑے شاٹس کھیلنے کی صلاحیت ہے
چھکوں کے بعد سنگلز لے کر سٹرائیک روٹیٹ کرتے ہیں
روایتی کے ساتھ غیر روایتی سٹروک بھی کھیل سکتے ہیں

بابراعظم، رضوان کی ٹیم میں کیا نہیں تھا؟
یہ وہ باتیں ہیں جو بابراعظم یا محمد رضوان کی زیر قیادت نظر نہیں آتی تھیں۔ ویسے تو سچ یہ ہے کہ بابراعظم اور رضوان دونوں اچھے بلے باز ہونے کے باوجود ماڈرن ٹی20 کرکٹ میں مہارت نہیں رکھتے۔ بات ان کی نیت یا جذبے کی نہیں شاید صلاحیت کی بھی ہے۔
بابر بڑے چھکے نہیں لگا سکتا، کوشش کے باوجود وہ شاید مہارت پیدا نہیں کر سکا، وہ گیندیں بھی بہت ضائع کرتا ہے۔ محمد رضوان کے پاس ایک دو بگ شاٹس ضرور ہیں مگر اس کے پاس ورائٹی نہیں، وہ بھی ڈاٹ بالز زیادہ کھیلتا ہے اور دونوں پاور پلے ضائع کر دیتے ہیں۔
بابراعظم اور رضوان کو سلمان علی آغا سے سیکھنا چاہیے۔ آغا بھی سپیشلسٹ بلے باز ہیں اور ٹیسٹ بھی کھیلتے ہیں۔ اچھی تکنیک ہے مگر اس نے بڑے شاٹس میں مہارت حاصل کر لی ہے، سپنرز کو لمبے چھکے لگاتا ہے، فاسٹ بولرز کو کور میں چھکے مارتا اور ڈاٹ بالز نہیں کھیلتا ہے۔
وکٹ کیپر محمد حارث جیسی کارکردگی دکھا رہا ہے، اس کے بعد رضوان کی ٹی20 میں جگہ بنانا مشکل ہو گیا ہے جبکہ فرحان، صائم ایوب اور فخر زماں کی موجودگی میں بابراعظم کی بھی قومی ٹی20 ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ ویسے تو شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو بھی ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے محنت کرنا پڑے گی ، خاص کر جب علی رضا جیسا نوجوان جینوئن فاسٹ اور عمدہ سوئنگ بولر ٹیم میں آنے کو تیار ہے۔
پی ایس ایل سٹارز سرخرو ہوئے ہیں
ایک اور اہم بات یہ دیکھنے میں آئی کہ جن کھلاڑیوں نے پی ایس ایل میں غیرمعمولی کارکردگی دکھائی تھی، اسی پرفارمنس پر وہ نیشنل ٹیم میں آئے۔ بعض کو تو خاصے عرصے کے بعد جگہ ملی۔ ان سب نے بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں بہت عمدہ کارکردگی دکھا کر اپنے آپ کو ثابت کیا ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے۔
مثال کے طور پر صاحبزادہ فرحان نے پی ایس ایل میں سب سے زیادہ رنز کیے۔ انہیں قومی ٹیم میں شامل کیا گیا اور پہلا میچ نہیں کھلایا گیا، دوسرے میچ میں موقع ملا اور فرحان نے اپنی دھواں دھار بیٹنگ سے ہر ایک کو حیران کر دیا۔ صاحبزادہ فرحان کو اب قومی ٹیم سے ڈراپ کرنا آسان نہیں۔

نوجوان حسن نواز نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں سنچری بنا چکا تھا مگر اس نے پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی دکھائی، پلیئر آف ٹورنامنٹ بنا۔ اس سیریز میں حسن نواز نے بہت عمدہ بیٹنگ دکھائی۔ پاکستان کو مڈل آرڈر میں حسن نواز جیسے عمدہ پاور ہٹر بلے باز کی شدید ضرورت تھی۔
حسن علی نے پی ایس ایل میں بہت عمدہ بولنگ کر کے سب کو متاثر کیا۔ حسن علی کی فٹنس بھی بہتر ہوئی اور بولنگ بھی۔ وہ اپنی پرفارمنس پر قومی ٹیم میں آیا۔ بہت سے لوگ اس پر ناخوش تھے۔ حسن علی نے پہلے میچ میں پانچ وکٹیں لیں اور باقی دونوں میچز میں بھی عمدہ پرفارمنس دی۔
شاداب خان خاصا عرصہ آؤٹ آف فارم رہے اور ٹیم سے ڈراپ ہوگئے۔ ان کا کیریئر خطرے میں تھا۔ شاداب نے ڈومیسٹک سیزن کھیلا اور پی ایس ایل میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔ اس سیریز کے پہلے میچ میں شاداب نے اپنی بیٹنگ اور بولنگ کارکردگی سے مین آف دی میچ جیتا جبکہ باقی دونوں میچز میں بھی وہ ٹھیک رہے۔
فہیم اشرف بھی عالمی ٹی20 لیگز اور پی ایس ایل کی پرفارمنس پر ٹیم میں واپس آئے، نئی گیند سے اچھی بولنگ کی اور اپنی افادیت دکھائی۔ ابرار احمد اور عباس آفریدی کی بھی پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی رہی، خاصی وکٹیں لیں۔ یہ پہلے بھی قومی ٹیم کا حصہ تھے، مگر پی ایس ایل کی فارم کو اس سیریز میں عمدگی سے دہرایا۔ سلمان آغا پی ایس ایل میں انجرڈ ہونے کے باعث چند میچ نہیں کھیلے اور درمیانی کارکردگی رہی لیکن بطور کپتان سلمان آغا نے نیوزی لینڈ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی تھی۔ اس سیریز میں بھی وہ اچھا کھیلے۔ آغا لیڈنگ فرام فرنٹ کی اچھی مثال ہیں۔
ویسے حسن علی، فہیم اشرف، صاحبزادہ فرحان، خوش دل شاہ وغیرہ نے اچھی مثال قائم کی ہے کہ رونے دھونے کے بجائے ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر اچھا پرفارم کیا جائے اور یوں قومی ٹیم میں واپسی ہو گئی۔ دیگر کھلاڑیوں کو بھی اس سے سیکھنا چاہیے۔ عمر اکمل اور احمد شہزاد جیسے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر کرکٹ بورڈ اور کرکٹ مینجمنٹ کو کوستے رہے جبکہ محنت اور پرفارم کرنے والے میدان مار گئے۔

کیا کمزوریاں دور کرنے کی ضرورت
ایسی شاندار جیت کے بعد کوئی تنقید نہیں سننا چاہتا اور نہ ہی اصلاح احوال کی تجاویز اچھی لگتی ہیں، تاہم تجزیہ ضرور کرنا چاہیے۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ پاکستان کی بیٹنگ اچھا کھیلی، کسی بڑی اور مضبوط بولنگ لائن کے خلاف ان کا امتحان ہوگا، ممکن ہے تب کوئی کھلاڑی ناکام ہوجائے یا بیٹنگ کولیپس ہوجائے مگر یہی انداز اب چلے گا۔ گریں گے تو پھر اٹھ کے کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ البتہ سوچنا چاہیے کہ کیا پاکستان کو نمبر چھ پر ایک اچھا پاور ہٹر بلے باز درکار ہے؟ عرفان خان نیازی یا عبدالصمد کی صورت میں؟ یوں آپشنز مزید بڑھ جائیں گی۔
بولنگ میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سیریز میں پاکستانی ٹیم صرف تین سپیشلسٹ بولرز سے کھیلی۔ حسن علی، حارث رؤف اور ابرار احمد۔ جبکہ تین آل راؤنڈر تھے، شاداب خان، خوشدل شاہ، فہیم اشرف۔ یہ ٹومچ ہے۔ تین آل راؤنڈرز کے بجائے صرف دو سے کام چلانا پڑے گا۔ کسی بھی اچھی بیٹنگ لائن اپ کے سامنے ہماری یہ بولنگ ایکسپوز ہو جائے گی۔
ہمیں کم از کم ایک اور اچھے سپیلشسٹ بولر کے ساتھ جانا ہوگا۔ شاداب خان کو اگر نمبر چھ پر کھلائیں تو نمبر سات پر خوش دل شاہ یا فہیم اشرف میں سے کوئی ایک کھیلے۔ پھر چار سپیلشسٹ بولرز کھیلیں۔ پچ کے مطابق کہیں تین فاسٹ اور ایک سپیشلسٹ سپنر اور کہیں دو سپیشلسٹ فاسٹ، دو سپیشلسٹ سپنرز۔
اس لیے کہ شاداب خان اب قابل اعتماد سپنر نہیں رہا۔ کسی ہارڈ ہٹنگ مخالف بیٹنگ کے سامنے ممکن ہے وہ چار اوورز نہ کرا سکے۔ یہی خوش دل کا معاملہ ہے۔ ایسے میں یہ دو اوورز کرائیں اور ایک ایک صائم اور آغا کرا سکتے ہیں۔

نمبر آٹھ پر عباس آفریدی کو کھلانے سے اچھا ٹی20 فاسٹ بولر اور بوقت ضرورت کچھ بیٹنگ کرنے والا کھلاڑی مل جائے گا۔ جبکہ حارث رؤف، حسن علی اور ابرار اس کے بعد چلے جائیں گے۔ سلو پچز پر مسٹری سفیان مقیم کو چانس دیا جا سکتا ہے یا پی ایس ایل میں حیران کر دینے والے مسٹری سپنر عثمان طارق کو بھی، اگر ان کے ایکشن پر اعتراض نہ ہو سکے۔
ویسے تو شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو بھی پلان سے باہر نہیں کرنا چاہیے۔ ان تجربہ کار بولرز پر کوچز کو محنت کرنا چاہیے۔ دونوں اچھی بھلی ٹی20 بیٹنگ بھی کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک ٹیم میں آ سکتا ہے۔
خیر اگلی سیریز میں ان سب مسائل، چیلنجز کا اندازہ ہوپائے گا۔ سردست تو سب پاکستانیوں کو شاندار کلین سوئپ فتح مبارک ہو۔

شیئر: