Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں ویپنگ پر پابندی، ’بچوں کی صحت کسی بھی کاروبار سے زیادہ اہم ہے‘

ویپنگ کا کاروبار نہ صرف دکانداروں بلکہ ای-لیکوڈ بنانے والوں، درآمد کنندگان، اور ڈسٹری بیوٹرز کے لیے بھی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ (فائل فوٹو: اردو نیوز)
لاہور کی مشہور اور معروف شاہراؤں اور شاپنگ مالز میں کُھلے رنگ برنگے ویپ سٹورز بدھ کی دوپہر تک بند مکمل طور پر بند دکھائی دے رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے گذشتہ روز صوبائی کابینہ کے اجلاس میں تمام ویپ سٹورز پر فوری پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے، اور پولیس کریک ڈاؤن کر کے تمام ویپ یا ای سگریٹ سٹورز بند کروائے گی۔
ایک مصروف شاپنگ مال میں 22 سالہ علی اپنے دوستوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی دکان کے باہر کھڑے ہیں، جہاں رنگین ویپنگ ڈیوائسز اور سٹرابیری سے لے کر چیری تک کے فلیورز کی بوتلیں سجی ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ دو برس سے ویپنگ کر رہے ہیں، یہ سگریٹ سے بہتر ہے، کوئی بدبو نہیں، اور ٹھنڈا بھی لگتا ہے، اور اس میں تمباکو بھی نہیں ہے۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت نے اس پر پابندی لگا دی ہے میرے خیال میں یہ ٹھیک نہیں ہوا پوری دنیا میں یہ چلتا ہے۔‘

پنجاب میں ویپنگ کا کاروبار

پنجاب کے بڑے شہروں لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور ملتان میں حالیہ برسوں میں ویپنگ کی دکانوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لاہور کے علاقوں گلبرگ، ڈیفنس اور جوہر ٹاؤن جیسے پوش علاقوں میں ویپ کی دکانیں عام ہیں۔ یہاں ایک ویپنگ ڈیوائس کی قیمت تین ہزار سے 20 ہزار روپے تک ہوتی ہے، جبکہ فلیورڈ ای-لیکوڈ کی بوتل ایک سے تین ہزار روپے میں ملتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور میں ویپ کی 500 سے زائد دکانیں ہیں، جو سالانہ 50 کروڑ روپے سے زائد کا کاروبار کرتی ہیں۔
تاہم اب سگریٹ بیچنے والی دکانوں پر بھی ویپس اور ان کے کیمیکل آسانی سے دستیاب ہیں۔ دو مہینے قبل لاہور ڈی ایچ اے میں ایک پیٹرول پمپ کی ٹک شاپ کے کارنر میں ویپنگ بزنس سٹارٹ کرنے والے 21 سالہ زین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں نے اے لیول کیا تھا، اس کے بعد میں نے اپنا کاروبار کرنے کے پلان بنایا تو مجھے چونکہ کلچر کا پتہ ہے اور ویپنگ کا کام تو بہت اوپر جا رہا ہے۔ تو میں نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر یہ چھوٹا سا کارنر لیا اور یہاں سے کام شروع کیا۔ میرا اس پر کوئی 25 لاکھ روپے خرچہ آیا۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ ہم کہاں جائیں اور اس سامان کو کہاں پھینکیں، ابھی میرے پاس تو پولیس نہیں آئی لیکن ظاہر ہے یہ خبر ہر طرف ہے ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔‘
تین برس سے اس کاروبار سے منسلک عمر، جو لاہور ماڈل ٹاون ایریا میں ایک دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے 80 فیصد گاہک 15 سے 25 برس کے نوجوان ہیں۔ وہ فلیورز اور جدید ڈیزائن کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ تاہم پابندی کے فیصلے نے ان جیسے دکانداروں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔‘
’ہم نے لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ اگر دکانیں بند ہوئیں تو ہمارا نقصان کون پورا کرے گا؟‘
ویپنگ کا کاروبار نہ صرف دکانداروں بلکہ ای-لیکوڈ بنانے والوں، درآمد کنندگان، اور ڈسٹری بیوٹرز کے لیے بھی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ویپنگ انڈسٹری 2024 میں 77.2 ملین ڈالر (تقریباً 21 ارب روپے) کی آمدنی پیدا کر چکی ہے۔

نوجوانوں میں ویپنگ کا بڑھتا رجحان

پاکستان میں ویپنگ کی مقبولیت، خاص طور پر نوجوانوں میں، تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 19.1 فیصد بالغ افراد تمباکو کے صارف ہیں، جبکہ 6.2 فیصد ویپنگ کرتے ہیں۔ لاہور کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں ویپنگ ایک ’فیشن‘ بن چکا ہے۔
شیشہ کلچر پر پابندی لگائے جانے کے بعد نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ویپنگ کی طرف راغب ہوئی۔ سٹرابیری، بلیو بیری اور ببل گم جیسے فلیورز نوجوانوں کو راغب کرتے ہیں۔
نوجوانوں میں ویپنگ کی مقبولیت کے حوالے سے سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر ارم علی کہتی ہیں کہ ’زیادہ تر بچے دوستوں کے دباؤ اور سوشل میڈیا پر ویپنگ کے پروموشنل مواد کی وجہ سے اس جانب راغب ہوتے ہیں۔ بہت سے نوجوان سمجھتے ہیں کہ ویپنگ سگریٹ سے بہتر ہے، حالانکہ اس میں نیکوٹین اور دیگر کیمیکلز کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔‘

عالمی قانون سازی

دنیا بھر میں ویپنگ کے حوالے سے قانون سازی سخت ہو رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 34 ممالک نے ای سگریٹس کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کی ہے، جبکہ 88 ممالک میں خریداری کے لیے کم از کم عمر کی پابندی نہیں ہے۔
چین میں فلیورڈ ای سگریٹس کی فروخت پر پابندی ہے اور سخت ریگولیشنز نافذ ہیں۔ انڈیا میں سنہ 2019 میں ای سگریٹس پر مکمل پابندی لگائی گئی، لیکن غیرقانونی طور پر فروخت جاری ہے۔ برطانیہ میں ویپنگ کو سگریٹ چھوڑنے کے لیے متبادل کے طور پر فروغ دیا جاتا ہے، لیکن 18 برس سے کم عمر افراد کے لیے فروخت ممنوع ہے۔ حال ہی برطانیہ نے ڈسپوزیبل ویپنگ پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
اسی طرح امریکہ کی کچھ ریاستوں میں فلیورڈ ویپنگ پر پابندی ہے۔ جبکہ آسٹریلیا میں ویپنگ کے لیے ڈاکٹر کا نسخہ ضروری ہے اورغیر قانونی فروخت پر سخت جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔
پاکستان ان 74 ممالک میں شامل ہے جہاں ویپنگ کے لیے کوئی مخصوص ضوابط نہیں تھے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ایک صوبائی حکومت نے اس پر ایگزیکٹو پابندی عائد کی ہے۔

نوجوانوں کی صحت پر اثرات

ویپنگ کے صحت پر اثرات خاص طور پر نوجوانوں کے لیے، تشویشناک ہیں۔ کئی عالمی اور مقامی تحقیقات اس کے خطرات کو اجاگر کرتی ہیں۔ ڈاکٹر سلمان شیروانی کہتے ہیں کہ ’ویپنگ ڈیوائسز میں نیکوٹین کی زیادہ مقدار ہوتی ہے، جو دماغی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ نیکوٹین سے توجہ، سیکھنے کی صلاحیت، اور موڈ پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ 80 فیصد ویپنگ سے متعلق پھیپھڑوں کے امراض کیمیکلز اور نیکوٹین پر مشتمل مصنوعات سے جڑے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایسی کئی تحقیقات بھی ہوئی ہیں کہ ویپنگ اور ڈپریشن کے درمیان تعلق پایا گیا ہے۔ سی ڈی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ویپنگ کرنے والے طلبہ میں اضطراب اور ڈپریشن کے علامات زیادہ ہیں۔ اس کو گیٹ وے ہائپوتھسز کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے کہ ویپنگ نوجوانوں کو سگریٹ اور دیگر منشیات کی طرف لے جا سکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ویپنگ کرنے والے نوجوانوں میں سگریٹ پینے کا امکان تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔‘
لاہور کی معروف پلمونولوجسٹ ڈاکٹر عارفہ کا کہنا تھا کہ ’ویپنگ کے ایروسول میں زہریلے کیمیکلز ہوتے ہیں جو پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے یہ ایک خاموش خطرہ ہے۔ یہ کسی بھی طرح سے سگریٹ سے کم خطرناک نہیں ہے بلکہ زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ اس کے پینے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے اور بہت زیادہ مقدار میں پیا جاتا ہے۔‘
دوسری جانب ترجمان پنجاب حکومت عظمٰی بخاری کا پابندی کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’جن لوگوں نے بھی ویپنگ کا کاروبار شروع کیا تو کیا وہ افیون یا دوسری منشیات کی دکانیں بھی کھول سکتے ہیں؟ وزیراعلٰی مریم نواز کا فوکس پنجاب کے بچوں کی صحت، تعلیم اور کیریئرز ہیں۔ اور انہوں نے اس فیصلے سے قوم کو تحفہ دیا ہے۔ بچوں کی صحت کسی بھی کاروبار سے زیادہ اہم ہے۔ اس فیصلے پر پوری طاقت سے عمل کروائیں گے۔‘ 

 

شیئر: