Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لو گرو‘ اور ’دیمک‘ روٹھے ہوئے فلم بینوں کو سینما گھروں میں واپس میں کامیاب ہو سکیں گی؟

رومانوی کامیڈی فلم ’لو گرو‘ کے ہدایت کار ندیم بیگ ہیں جبکہ اس کی کہانی واسع چوہدری نے لکھی ہے۔ (فائل فوٹو: آئی ایم ڈی بی)
عید ایک ایسا موقع ہے جب فلم بینوں کو نئی فلم کا انتظار ہوتا ہے اور وہ اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ سینما جانے کے لیے پُرجوش ہوتے ہیں۔ 
فلم سازوں کی جانب سے عید کے تہوار پر اپنی فلمیں نمائش کے لیے پیش کرنے کی اہم وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عام دنوں کی نسبت ان خاص مواقع پر فلم کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ سینما مالکان کی اُمیدیں بھی ان تہواروں سے جڑی ہوتی ہیں کیونکہ جب زیادہ تعداد میں لوگ سینما کا رُخ کرتے ہیں تو انہیں کاروباری اعتبار سے منافع ہوتا ہے۔
یوں تو ہر سال ہی عید کے موقع پر فلمیں سینما گھروں کی زینت بنتی ہے لیکن گذشتہ کچھ برسوں میں ان تہواروں پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
عید کے موقع پر پاکستانی ہی نہیں بلکہ انڈین فلموں کی بھی نمائش ہوا کرتی تھی لیکن سنہ 2019 میں جب پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کشیدہ ہوئے تو پڑوسی ملک کی فلموں پر پابندی لگ گئی۔
اس پابندی کے باوجود کچھ انڈین پنجابی فلمیں پاکستان کے سینما گھروں میں ریلیز ہوتی رہی ہیں جن میں انڈین اداکار تھے جیسے کہ گذشتہ برس ’جٹ اینڈ جولیٹ 3‘ پاکستانی سینما گھروں کی زینت بنی تھی۔ یہ فلم چونکہ انڈیا سے باہر پروڈیوس ہوئی تھی اس لیے اسے پاکستان میں بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔
لیکن اس بار دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی نے ان فلموں کی بھی پاکستان کی بڑی سکرینوں تک رسائی بند کر دی ہے۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر کوئی بھی انڈین فلم نمائش کے لیے پیش نہیں کی جا رہی اور صرف دو پاکستانی فلموں کے درمیان ہی مقابلہ ہے۔
عید پر میگا بجٹ فلم ’لو گرو‘ اور ہارر فلم ’دیمک‘ کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ 
فلم ’دیمک‘ کو مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ نے جیو فلمز کے اشتراک سے تیار کیا ہے۔ فلم کی ہدایت کاری رافع راشدی نے کی ہے جبکہ سید مراد علی اس کے ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں۔ رومانوی کامیڈی فلم ’لو گرو‘ کے ہدایت کار ندیم بیگ ہیں جبکہ اس کی کہانی واسع چوہدری نے لکھی ہے۔

عید الاضحیٰ کے موقع پر پاکستانی سینماؤں میں کوئی بھی انڈین فلم نمائش کے لیے پیش نہیں کی جا رہی۔ (فائل فوٹو: سنڈے ڈاٹ کوم)

عید پر فلموں کی نمائش کا ٹرینڈ کتنا پرانا؟

پاکستان کی شوبز انڈسٹری کو گذشتہ چار دہائیوں سے رپورٹ کرنے والے سینیئر صحافی طاہر سرور میر کے مطابق برصغیر میں تہواروں پر فلموں کی نمائش کا خاص اہتمام ایک روایت ہے۔ 
انہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ تقسیم ہند کے بعد آزاد پاکستان کی پہلی تیار کردہ فلم ’تیری یاد‘ سات اگست 1948 کو عیدالفطر کے موقع پر ہی نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی۔
’فلم شہنائی بھی دیکھا جائے تو ایک طرح سے عید الفطر کے موقع پر ریلیز ہوئی تھی کیونکہ 14 اگست 1947 کو 27 رمضان تھا اور اس کے بعد 15 اگست انڈیا کی آزادی کا دن تھا۔‘
طاہر سرور میر کا کہنا تھا کہ بمبئی میں تیار کردہ فلم ’بندیا‘ کی 24 اکتوبر 1947 کو عیدالاضحی کے موقع پر پاکستان میں نمائش ہوئی تھی۔ اور جب بنگلہ دیش پاکستان ہوا کرتا تھا تو 121 تک فلمیں بنیں لیکن الگ ہونے کے بعد یہ تعداد بہت کم رہ گئی۔ 
’بھٹو دور میں فلم کے شعبے نے ترقی کی لیکن ضیا الحق کے دور میں انڈسٹری کو تالے لگ گئے۔‘
سینیئر شوبز صحافی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سینما کی زبوں حالی کی وجہ حکومتوں کی ترجیحات میں اس کا شامل نہ ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے فلم انڈسٹری میں دو ارب روپے مختص کیے ہیں جو احسن اقدام ہے تاہم اس کے باوجود سینما کی بحالی بہت مشکل ہے۔ 

فلم ’دیمک‘ کو مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ نے جیو فلمز کے اشتراک سے تیار کیا ہے۔ (فوٹو: جیو ڈاٹ ٹی وی)

اس کی وجہ طاہر سرور میر نے کچھ یوں بتائی کہ ’وقت کے ساتھ ساتھ زمانے کے انداز بدلتے ہیں۔ سینما جا کر فلم دیکھنے کے رجحان میں اُس وقت کمی دیکھی گئی جب وی سی آر آیا اور پھر سی ڈی کا دور آ گیا۔ اب سینما انڈسٹری کو او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کا سامنا ہے۔‘

’جیو فلمز اور اے آر وائی فلمز کا مقابلہ‘

فلم ساز علی سجاد شاہ (ابو علیحہ) کا کہنا ہے کہ عید پر ریلیز ہونے والی دونوں فلموں ’لو گرو‘ اور ’دیمک‘  کی سٹار کاسٹ ہے اور ان کے پیچھے بڑے پروڈکشن ہاؤسز ہیں اس لیے اچھے ریسپانس کی توقع ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عید الفطر پر جو فلمیں ریلیز ہوئیں وہ ساری انڈیپنڈنٹ فلمیں تھیں جس کے پیچھے کوئی بڑا پروڈکشن ہاؤس تھا نہ ہی انہیں کسی ایسے پروڈیوسر نے بنایا جس کے کریڈٹ پر کوئی بڑی فلم ہو۔ اس کے علاوہ ان فلموں کی کوئی خاص پروموشن بھی نہیں کی گئی تھی۔ 
علی سجاد شاہ کا کہنا تھا کہ ’اس عید پر دونوں بڑی فلمیں آ رہی ہیں۔ ’لو گرو‘ کی بات کریں تو ہمایوں سعید اور ندیم بیگ بڑا نام ہیں اور پھر اے آر وائی نیٹ ورک ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ ان کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں تو جو چار سے پانچ فلمیں اِنہوں نے بنائی ہیں وہ بلاک بسٹر رہی ہیں۔‘
’یہ بجٹ واقعی بہت بڑے بجٹ کی فلم ہے جیسا کہ ہمایوں سعید نے خود کہا ہے کہ یہ 28 کروڑ روپے کی فلم ہے۔ اب 28 کروڑ روپے کی فلم کو بریک ایون (لاگت کے قریب منافع) کے لیے پاکستانی سینما سے پوری دنیا میں 75 کروڑ سے اوپر بزنس کرنا ہو گا۔ اب یہ ایک سوال ہے کہ موجودہ سینما کا کیا اتنا فٹ فال ہے اور کیا اتنی پذیرائی ملتی ہے۔‘

فلم ساز علی سجاد شاہ نے کہا کہ ’میں بہت پُرامید ہوں اور میری خواہش بھی ہے کہ ’دیمک‘ چل جائے۔‘ (فوٹو: یوٹیوب)

انہوں نے کہا کہ ’فلم کی ہائپ بہت مزے کی ہے، سٹار کاسٹ ہے لیکن عید پر محرم سے پہلے آپ کے پاس صرف 20 دن ہوتے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ عید کے پہلے تین دن کے بعد کیسا ریسپانس ملتا ہے اور پھر کتنے لوگ فلم دیکھنے جاتے ہیں۔‘

’لوگ روم کوم فلموں سے تنگ آ چکے ہیں‘

فلم ’دیمک‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فلم ساز علی سجاد شاہ نے کہا کہ ’ہمارے یہاں بہت سے فلم ساز یہ بات نظرانداز کر رہے ہیں کہ پاکستان میں چپکے سے ایک ایسی آڈینس بن گئی ہے جو ہارر سینما دیکھتی ہے۔ ہمارے یہاں نائیجیرین ہارر فلمیں ڈب ہو کر لگ رہی ہیں یا سب ٹائٹلز کے ساتھ ریلیز ہو رہی ہیں جو اچھا بزنس کر رہی ہیں۔ تو اس کو ذہن مین رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس فلم کو لوگ دیکھنے آئیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک تو فیملی فلم ہے، سٹار کاسٹ ہے اور پھر یہ کہ ڈائریکٹر رافع راشدی ’تھوڑا جی لے‘ کے نام سے ایک فلم بنا چکے ہیں ان کا ایک تجربہ پہلے ہو چکا ہے۔ ’دیمک‘ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ دو بڑے ادارے اس کے پیچھے ہیں ایک تو مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ جنہوں نے ’مولا جٹ‘ جیسی فلم ریلیز کی اور پھر جیو فلمز اسے سپورٹ کر رہا ہے۔‘
فلم ساز علی سجاد کا کہنا تھا کہ ’میں بہت پُرامید ہوں اور میری خواہش بھی ہے کہ ’دیمک‘ چل جائے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ لوگ اب روم کوم سے تنگ آ چکے ہیں۔ ایک لڑکا ایک لڑکی، رومانس اور شادی، اس قسم کی فلمیں لوگ اب دیکھنا نہیں چاہتے بلکہ اب تو بالی وڈ نے بھی ایسی فلمیں بنانا چھوڑ دی ہیں۔‘

 

شیئر: