ٹرمپ اور ایلون مسک کی محاذ آرائی سے امریکی خلائی منصوبے خطرے میں
2002 میں قائم ہونے والی سپیس ایکس نے روایتی دفاعی ٹھیکے داروں کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی لانچ سروس کمپنی کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کے راکٹس امریکی خلا نوردوں کو انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) تک پہنچاتے ہیں۔ اس کا سٹارلنک سیٹلائٹ نیٹ ورک دنیا بھر میں انٹرنیٹ فراہم کر رہا ہے، اور کمپنی امریکی محکمہ دفاع کے حساس ترین منصوبوں کا حصہ بھی ہے، جن میں ہائپر سونک میزائلز کی نگرانی شامل ہے۔
ایسے میں جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ایلون مسک کے وفاقی معاہدے منسوخ کرنے کی دھمکی دی، تو خلائی شعبے کے ماہرین فوراً متوجہ ہو گئے۔
دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے بھی جواب میں سخت ردعمل دیا اور کہا کہ وہ ’ڈریگن‘ کیپسول کو بند کر دیں گے۔ یہی کیپسول ناسا کے خلابازوں کو خلا میں لے جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم کچھ ہی گھنٹوں بعد انہوں نے یہ دھمکی واپس لے لی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال ایلون مسک اور حکومت کے درمیان باہمی انحصار اس کشیدگی کو مکمل تصادم میں بدلنے سے روکے گا۔ تاہم یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر یہ شراکت ختم ہوئی تو نتائج کتنے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
سپیس ایکس: اجارہ داری؟
2002 میں قائم ہونے والی سپیس ایکس نے روایتی دفاعی ٹھیکے داروں کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی لانچ سروس کمپنی کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔
ایلون مسک کا خواب ہے کہ انسان کو ’کثیر سیاروی‘ مخلوق بنایا جائے، اور یہی خواب سپیس ایکس کو خلائی دوڑ میں سب سے آگے لے آیا ہے۔
یہی کمپنی اب ناسا کے لیے خلا بازوں کو آئی ایس ایس بھیجنے کا واحد ذریعہ ہے، جو سرد جنگ کے بعد عالمی تعاون کی علامت بھی ہے اور مستقبل کے خلائی مشنوں کے لیے تجربہ گاہ بھی۔
سپیس ایکس اب تک 10 کامیاب عملے کی تبدیلی مشن مکمل کر چکی ہے، اور تقریباً 5 ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت مزید چار مشن باقی ہیں۔
اگر ڈریگن کیپسول بند ہو جاتا ہے، تو امریکہ کو ایک بار پھر روسی سویوز راکٹس پر انحصار کرنا پڑے گا، جیسا کہ 2011 سے 2020 کے دوران ہوا تھا، جب سپیس شٹل پروگرام ختم ہو چکا تھا اور ڈریگن ابھی تیار نہیں تھا۔
سپیس تجزیہ کار لورا فورسک نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’موجودہ عالمی سیاسی تناؤ کے تناظر میں یہ کوئی بہتر آپشن نہیں ہوگا۔‘
ناسا کی خواہش تھی کہ بوئنگ کا ’سٹار لائنر‘ متبادل بنے، مگر مسلسل تاخیر اور گزشتہ سال کا ناکام آزمائشی مشن اسے زمین پر ہی رکھے ہوئے ہے۔
یہی نہیں، نارتھروپ گرومین کی کارگو سروس بھی اب سپیس ایکس کے فالکن 9 راکٹ پر انحصار کرتی ہے، جو کمپنی کا بنیادی راکٹ ہے۔
آرٹیمس پروگرام کو خطرہ؟
یہ صورت حال ناسا کے ’آرٹیمس پروگرام‘ پر بھی سوالات کھڑے کرتی ہے، یہی پروگرام امریکہ کے چاند مشن کا اگلا مرحلہ ہے۔
آرٹیمس III اور IV میں خلا بازوں کو چاند پر اتارنے کے لیے سپیس ایکس کا اسٹارشپ استعمال ہونا ہے۔ اگر اسٹارشپ کو سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے، تو بلیو اوریجن جیسی حریف کمپنیوں کو موقع مل سکتا ہے، لیکن اس کا مطلب ہوگا مزید تاخیر، اور شاید چین، جو 2030 تک انسانوں کو چاند پر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے، بازی لے جائے۔
، فورسک نے خبردار کیا کہ ’فالکن 9 جیسے طاقتور راکٹ بہت کم ہیں، صدر ٹرمپ جتنا آسان سمجھ رہے ہیں، اتنا ہے نہیں۔‘
ادھر ناسا کی کوشش ہے کہ وہ متبادل امکانات بھی پیش کرے۔
ادارے نے اے ایف پی کو جاری بیان میں کہا کہ ’ناسا سٹار لائنر کی پہلی آئی ایس ایس پرواز کے لیے 2026 کے آغاز کا جائزہ لے رہا ہے، بشرطیکہ نظام کی تصدیق اور تکنیکی مسائل حل ہو جائیں۔‘
تاہم فورسک نے خبردار کیا کہ یہ تنازع صدر ٹرمپ کو خلائی پروگرام سے بدظن کر سکتا ہے، جس سے ناسا کے طویل مدتی منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔
نجی طاقت، عوامی خطرہ
اگرچہ سپیس ایکس صرف امریکی حکومت پر انحصار نہیں کرتی، سٹارلنک کی سبسکرپشنز اور تجارتی مشنز سے اسے بڑی آمدنی ہوتی ہے، لیکن وفاقی معاہدے ختم ہونا کمپنی کے لیے بڑا دھچکہ ہو گا۔
اے ایف پی سے گفتگو میں کلائیٹن سووپ، جو سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں ایرو سپیس سیکیورٹی پراجیکٹ کے نائب ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ ’یہ ایک ایسی قیامت خیز صورت حال ہے جس میں دونوں فریق نقصان اٹھائیں گے، اس لیے امکان یہی ہے کہ تنازع جلد ختم کر کے معمول کی جانب واپس آیا جائے۔‘
تنازع کی جھلک پچھلے ہفتے اس وقت نظر آئی جب وائٹ ہاؤس نے اچانک جیرڈ آئزک مین کی ناسا کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر نامزدگی واپس لے لی، جو ایلون مسک کے قریبی ساتھی اور دو بار سپیس ایکس کے ساتھ خلا جا چکے ہیں۔
ایک پوڈکاسٹ پر گفتگو میں آئزک مین نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کچھ لوگ ذاتی بغض رکھتے تھے، اور میں ایک آسان ہدف تھا۔‘
یہ پوری صورتحال ایک بار پھر اس بحث کو جنم دے سکتی ہے کہ کیا امریکی حکومت کو کسی ایک تجارتی کمپنی پر اتنا زیادہ انحصار کرنا چاہیے؟ خاص طور پر جب اس کا سربراہ کسی سیاسی تنازع کا حصہ بن جائے۔
کلائیٹن سووپ کے مطابق ’یہ ایک اور مثال ہے کہ صرف نجی اداروں پر انحصار کس طرح خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کئی پالیسی ساز اب شاید سوچنے لگے ہوں گے کہ ایسا اعتماد دینا درست بھی ہے یا نہیں۔‘