پانچ برطانوی حجاج جو 59 روزہ بحری سفر کے بعد سعودی عرب پہنچے
پانچ برطانوی حجاج جو 59 روزہ بحری سفر کے بعد سعودی عرب پہنچے
پیر 9 جون 2025 23:29
حجاج کے اس گروپ کو پہلے جہازرانی کا کوئی تجربہ نہیں تھا (فوٹو: فیس بک)
چھ عازمینِ حج کا ایک گروپ جنہیں پہلے جہازرانی کا کوئی تجربہ نہیں تھا، لندن سے 59 روزہ بحری سفر کے بعد سعودی عرب پہنچے جہاں گروپ کے ارکان نے حج ادا کیا۔
سعودی حکام نے جدہ پہنچنے پر جس طرح ان کا خیر مقدم کیا، برطانوی گروپ نے اس کی بہت تعریف کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق برطانیہ سے سفر حج کے لیے نکلنے والے اس گروپ کے افراد کی عمریں 27 سے 47 برس کے درمیان تھیں۔ انھوں نے سفر یکم اپریل کو شروع کیا تھا۔ یہ گروپ 27 مئی کو حج سے صرف ایک ہفتہ پہلے جدہ پہنچا۔
سفرحج کرنے والوں میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی ہنر کا ماہر تھا۔ کوئی آئی ٹی کا پروفیشنل تھا تو کوئی کمیونٹی آرگنائزر۔ تاہم ان میں سے کسی نے بھی ماضی میں جہازرانی کی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔
لیکن اکٹھے ہو کر انھوں نے پانیوں میں راستہ بنانے کا طریقہ جان لیا، جہاز کو سنبھالنے کے فن سے آشنا ہوگئے اور ہفتوں تک خود کو سمندر میں رہنے کا عادی بنا لیا۔ اکثر سمندر کا موسم غیر متوقع ہوتا تھا اور انھیں دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ان چھ عازمینِ حج کے نام عبدالوحید، توصیف احمد، جوڈی میکنٹائر، دبیرالدین، طاہر اختر اور ایاز خان ہیں۔ ان عازمین نے یورپ اور شمالی افریقہ میں اپنے سفر کے دوران کئی مقامات پر قیام کیا۔ سمندری سفر کے دوران زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں اپنی رائے سوشل میڈیا پر ایک کمیونٹی کے ساتھ شیئر کرتے رہے۔
عبدالوحید نے جو جہاز کے کپتان تھے، بتایا ’یہ بحری سفر زندگی کو بدل دینے والا اور یادگار بن چکا ہے (فوٹو: فیس بک)
حج کے دوران منٰی میں عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے عبدالوحید نے جو جہاز کے کپتان تھے، بتایا کہ ’یہ بحری سفر زندگی کو بدل دینے والا اور یادگار بن چکا ہے۔ ان کا سب سے پسندیدہ لمحہ وہ تھا جب اپنے سفر کے آخری مرحلے میں وہ خلیج سویز سے نکلے۔‘
’دور انھیں پہاڑ نظر آ رہے رہے تھے جو کئی دونوں کے طوفانوں اور ناہموار سمندری سفر کے بعد سعودی عرب کی طرف پہنچنے کی پہلی نشانی تھی۔ یہ لمحہ انتہائی پُرمسرت تھا۔ اس لمحے میں ان عازمین کو یقین ہوگیا کہ اب وہ حج کے لیے سعودی عرب پہنچ جائیں گے۔‘
عبدالوحید نے سعودی عرب پہنچنے اور پورے حج کے تجربے پر بات کرتے ہوئے حج کے دوران انتہائی دیکھ بھال اور تنظیمی امور کی تعریف کی۔
انھوں نے کہا کہ ’حج کے درمیان انھیں اطمینان تھا اور بحری سفر میں جن چیلنجز سے کا سامنا کرنا پڑا اس کے مقابلے میں یہاں کا بندوبست بہت عمدہ تھا۔‘
انہوں نےحج کے دوران انتہائی دیکھ بھال اور تنظیمی امور کی تعریف کی۔(فوٹو: فیس بک)
انہوں نے بتایا’ سعودی حکام نے عازمینِ حج کے ساتھ قابلِ احترام مہمانوں کی طرح سلوک کیا، ہر جگہ انھیں ایمبیولینس اور رضا کار دکھائی دیے جو عازمین کو پانی اور جمی ہوئی برف کے ٹکڑوں کی پیشکش کر رہے تھے۔ ان کے بقول یہ صاف ظاہر تھا کہ ہر کوئی حج کے اس تجربے کو روحانی اور یادگار بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
’سعودی حکام نے ایسے انتظام کیے تھے کہ عازمین کا بہت خیال رکھا جا رہا تھا۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ آپ کو کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ آپ سڑک پر چل رہے ہیں تو سکاؤٹس آپ کو پانی یا برف پیش کریں گے تاکہ اس سے اپنا سر ٹھنڈا رکھ سکیں۔ سکیورٹی آپ کو پانی کی بوتلیں دیں گے۔ فائر بریگیڈ کا عملہ صرف اپنے اصل کام پر مامور نہیں تھا بلکہ وہ باہر نکل کر عازمینِ حج پر پانی کی پھوار ڈال رہے تھے تاکہ انھیں گرمی کا احساس کم ہو۔ یہاں ہر کوئی شخص چاہ رہا تھا کہ حج آپ کے لیے باعثِ خوشی، روحانی اور زندگی کا بہترین تجربہ بن جائے۔‘
یورپ اور شمالی افریقہ میں اپنے سفر کے دوران کئی مقامات پر قیام کیا (فوٹو: فیس بک)
برطانیہ سے آنے والے چھ افراد میں سے عملے کے ایک اور رکن ایاز خان نے بتایا کہ ’سمندر کے راستے حج پر آنا ’خود کو انتہا تک لے جانے کے مترادف تھا مگر اس کی اپنی روحانی اہمیت تھی۔‘
ایازخان نے اس خیرمقدم کا خاص طور پر ذکر کیا جو انھیں سفر کے اختتام پر جدہ پہنچنے پر ملا۔’ہم نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ لگتا تھا کہ ایک خواب کی تکمیل ہو رہی ہے۔‘
ان کے خاندان کے کسی فرد نے پہلے حج نہیں کیا اور جب انھوں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ وہ سمندر کے راستے حج پر جا رہے ہیں تو والدہ فکر مند ہوگئیں۔ تاہم انہی بتایا کہ حج کی اہمیت، ان کی زندگی سے بھی زیادہ ہے۔انھیں ایک مقدس سفر کی تکمیل کا موقع ملا ہے۔
اس سفر کے دوران عازمینِ حج کا یہ گروپ برطانیہ اور فرانس کے درمیان پانی سے گزرا، پھر وہ بحیرۂ روم کے جزائر کورسیکا، سارڈینیا، سسلی، اور کریٹ پر پہنچے۔ اس کے بعد وہ نہر سوئز میں سے گزرتے ہوئے بحیرۂ احمر تک آئے جہاں سے وہ اپنی آخری منزل جدہ پہنچے۔
ان کا کہنا تھا کہ’ سمندری حج کی وجہ سے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو یہ سمجھ آ گیا ہے کہ روحانی تکیمل کا راستہ اکثر ان مقامات سے ہو کرگزرتا ہے جہاں آپ پہلے نہیں گئے ہوتے لیکن ثابت قدمی اور دلجمعی کے ساتھ، عاجزی اور انکساری کے ذریعے اور خدا پر بھروسہ ہو تو تلاطم خیز سمندر بھی آپ کو مقدس منزل پر پہنچنے دیتے ہیں۔‘