Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام میں خواتین کے لیے عوامی ساحلوں پر برقینی پہننا لازمی قرار

شام کی اسلام پسند حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ خواتین کو عوامی ساحلوں اور سوئمنگ پولز پر برقینی یا ایسا تیراکی کا لباس پہننا ہوگا جو جسم کو ڈھانپتا ہو، جبکہ نجی کلبوں اور لگژری ہوٹلوں میں مغربی طرز کا لباس پہننے کی اجازت دی گئی ہے۔
اس ہفتے سیاحت کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ یہ فیصلہ دمشق کے حکام کی جانب سے خواتین کے لباس سے متعلق پہلا باقاعدہ ضابطہ ہے، جو دسمبر میں بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
بشار الاسد کے خاندان کے آمرانہ دور حکومت میں، جو کہ سیکولر عرب قوم پرستانہ نظریے پر مبنی تھا، ریاست نے لباس سے متعلق ایسی کوئی پابندیاں عائد نہیں کی تھیں۔ تاہم اس دور مین عوامی ساحلوں پر لوگ اکثر روایتی اقدار کے مطابق لباس پہنتے تھے۔

نئے ضابطے 9 جون کو جاری کردہ ایک وسیع تر فرمان میں شامل کیے گئے، جس میں موسم گرما کے پیشِ نظر ساحلوں اور سوئمنگ پولز کے لیے حفاظتی ہدایات بھی شامل تھیں، جیسے دھوپ میں زیادہ دیر نہ رہنا اور جیلی فِش سے بچاؤ۔

فرمان میں کہا گیا کہ عوامی ساحلوں اور سوئمنگ پولز پر آنے والے افراد کو ’ایسا مناسب لباس پہننا چاہیے جو عوامی شائستگی اور مختلف طبقوں کے جذبات کا احترام کرے۔ جس کے تحت واضح طور پر برقینی یا ایسا لباس جو جسم کو زیادہ ڈھانپے، تجویز کیا گیا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ خواتین کو ساحل اور دیگر علاقوں کے درمیان آتے جاتے وقت تیراکی کے لباس پر کوئی چادر یا ڈھیلا لباس پہننا چاہیے۔
مردوں کو تیراکی کے علاوہ دیگر اوقات میں قمیص پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے، اور عوامی مقامات جیسے ہوٹل لابی یا ریستورانوں میں ننگے جسم پر پابندی لگائی گئی ہے۔
فرمان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوامی مقامات جیسے ساحلوں اور سوئمنگ پولز کے باہر ڈھیلا لباس پہننا بہتر ہوگا جو کندھوں اور گھٹنوں کو ڈھانپے، اور شفاف یا بہت تنگ لباس سے گریز کرنا چاہیے۔
تاہم اس نے چار ستارہ یا اس سے اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں، اور نجی ساحلوں، پولز اور کلبوں کے لیے استثنا فراہم کیا ہے، جہاں عام مغربی طرز کا تیراکی کا لباس عمومی طور پر قابل قبول ہوگا، بشرطیکہ یہ ’عوامی اخلاقیات‘ اور ’ذوقِ عامہ‘ کے مطابق ہو۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سنی اسلام پسند باغیوں کی جانب سے خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے والے پمفلٹ تقسیم کیے گئے، لیکن حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ ہدایات جاری نہیں کی گئی تھیں۔
اس سال کے شروع میں منظور کی گئی عبوری آئین میں شریعت (اسلامی قانون) کے کردار کے حوالے سے زبان کو مزید مضبوط کیا گیا ہے۔

شیئر: