پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات نے اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی تحریروں پر مبینہ پابندی سے متعلق ایک وائرل نوٹیفکیشن کو جعلی قرار دے دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر زیرگردش اس دستاویز میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت پاکستان نے منٹو کی تحریروں کو ’فحش اور اخلاقیات کے منافی‘ قرار دیتے ہوئے ان کی اشاعت، تدریس اور فروغ پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
مزید پڑھیں
-
اردو افسانے کی سلطنت کے معمار غلام عباس کا لاہور سے عشقNode ID: 619121
تاہم حکومت کی جانب سے اس نوٹیفکیشن کو جعلی قرار دے کر اس کی سختی سے تردید کر دی گئی ہے۔
وائرل نوٹیفکیشن میں 22 جون 2025 کی تاریخ درج ہے اور اسے وزارتِ اطلاعات و نشریات (نیشنل ہیریٹیج اینڈ کلچر ڈویژن) کی جانب سے جاری کردہ ظاہر کیا گیا۔
نوٹیفکیشن میں تعلیمی اداروں، لائبریریوں، پبلشرز، کتاب فروشوں اور میڈیا اداروں کو سعادت حسن منٹو کے مواد کو فوری طور پر ہٹانے کی ہدایات دی گئیں اور بصورتِ دیگر قانونی کارروائی کی وارننگ بھی دی گئی تھی۔
یہ نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خاص طور پر فیس بک اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر تیزی سے پھیلا، جس کے بعد ادبی حلقوں میں گہری تشویش اور اضطراب کی کیفیت دیکھی گئی۔
معاملے کی حقیقت اس وقت واضح ہوئی جب وزارتِ اطلاعات و نشریات نے باضابطہ ایکس پوسٹ کے ذریعے اس نوٹیفکیشن کو جعلی اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔
اپنی وضاحتی پوسٹ میں وزارت نے لکھا کہ ’جعلی خبروں کی ترسیل نہ صرف غیراخلاقی اور غیرقانونی ہے بلکہ یہ قوم کے ساتھ ناانصافی بھی ہے۔ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ ایسے غیرذمہ دارانہ رویوں کو مسترد کرے۔ جعلی خبروں کو رد کریں۔‘
Disseminating #FakeNews is not only unethical and illegal but it is also disservice to the nation. It is the responsibility of everyone to reject irresponsible behavior. Reject #FakeNews pic.twitter.com/U5Xnt0BVcg
— Fact Checker MoIB (@FactCheckerMoIB) June 23, 2025
مزید تفتیش پر یہ بھی سامنے آیا کہ وزارتِ اطلاعات کی آفیشل ویب سائٹ پر اس نوعیت کے کسی نوٹیفکیشن کا کوئی وجود نہیں ہے۔ حکومت یا متعلقہ اداروں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ اعلان یا بیان بھی سامنے نہیں آیا تھا۔
سعادت حسن منٹو کی تحریریں ماضی میں بھی اپنے موضوعات کی وجہ سے تنازع کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ ان کے کئی افسانوں پر ماضی میں فحاشی کے الزامات کے تحت مقدمات بھی چلے۔ تاہم، ان کی تحریریں آج بھی اردو ادب میں اہم تنقیدی، فکری اور تاریخی حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔