Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حملوں کے بعد بھی امریکہ اور ایران میں جوہری سفارتکاری ممکن ہے؟

سابق صدر باراک اوباما کے دور میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے پایا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ایران کے ساتھ سفارتکاری کے دروازے کھلے ہیں جبکہ اس سے چند دن قبل ہی انہوں نے بی ٹو بمباروں کو ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے احکامات جاری کیے تھے۔
عرب نیوز کے مطابق 22 جون کو بھی صدر ٹرمپ نے فردو، نطنز اور اصفحان میں جوہری تنصیبات کو عین مطابق نشانہ بنانے کے اقدام کو سراہا اور کہا کہ ’زمین پر موجود کوئی اور فوج ایسا نہیں کر سکتی تھی۔‘
جبکہ صدر ٹرمپ کے ان دعووں کے بعد امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ بھی سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ امریکی حملے یورینیم کے ذخائر یا سینٹری فیوجز کو تباہ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور صرف جوہری پروگرام کو چند ماہ پیچھے دھکیلا جا سکا ہے۔
اس رپورٹ کے جواب میں صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر اپنے دعووں کو دہرایا اور کہا کہ ’ہم آئندہ ہفتے ایران سے بات کریں گے‘ اور شاید وہ معاہدے پر دستخط کر لیں۔
ایک سوال کے جواب میں کیا امریکہ ایران پر سے پابندیاں اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے، صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران نے ’بہادری کے ساتھ جنگ لڑی‘ اور چین اگر چاہے تو ایران سے تیل خرید سکتا ہے، ’کیونکہ ایران کو واپس بحال ہونے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہو گی۔‘
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدر ٹرمپ کے تبصرے اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ امریکہ ایران کے ساتھ ایک نئے جوہری معاہدے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ معاہدہ کیا شکل اختیار کرے گا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس تنازع کا واحد قابل عمل راستہ سفارتکاری ہی ہے۔
تقریباً دس سال قبل 14 جولائی 2015 کو امریکہ، چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ، یورپی یونین اور ایران کے نمائندے مشترکہ جامع لائحہ عمل (جے سی پی او اے) نامی جوہری معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے ویانہ میں اکھٹے ہوئے تھے۔
پابندیاں ہٹانے اور دیگر اقدامات کے بدلے میں ایران نے 300 کلوگرام یورینیم کے ذخائر کی 3.7 فیصد تک افزودگی پر آمادگی ظاہر کی تھی جو بم بنانے کے لیے ناکافی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس کا جوہری پروگرام صرف بجلی کی پیداوار کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

امریکہ نے تین مقامات پر ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس معاہدے کے بانی سابق صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ ’اصولوں پر مبنی سفارتکاری اور امریکہ کی ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے پر رضامندی نے مذاکرات کے دروازے کھول دیے ہیں۔‘
تاہم محض تین سال کے عرصے میں اس وقت کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو دستبردار کر دیا تھا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
چند تجزیہ کاروں کے خیال میں گزشہ دو ہفتے جاری رہنے والی لڑائی کے باوجود ایران اور امریکہ کے درمیان عنقریب ایک نیا جوہری معاہدہ ہو سکتا ہے۔
کیلی فورنیا سٹیٹ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ابراہیم الماراشی کا کہنا ہے کہ ’2015 کا معاہدہ، اگرچہ نامکمل تھا لیکن ایران کے جوہری پروگرام کے بڑے حصے کو کامیابی کے ساتھ پیچھے دھکیلا گیا اور اسے دنیا کی سب سے زیادہ مداخلت کرنے والی نگران ایجنسی کے تحت کیا گیا۔‘
’اس (معاہدے) کا خاتمہ ناگزیر نہیں تھا۔ یہ ایک سیاسی چوائس تھی، جو یکطرفہ طور پر امریکہ کے دستبردار ہونے سے ختم ہو گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن یہ واحد راستہ ہے جو پہلے بھی کارآمد ثابت ہوا، اور آئندہ بھی یہی راستہ ممکنہ طور کارآمد ہوگا۔‘
سعودی عرب، عراق اور شام میں خدمات انجام دینے والے سابق برطانوی سفیر سر جان کیننز نے جوہری معاہدے جے سی پی او اے میں کمیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’اس مرتبہ مختلف ہونا چاہیے۔ اور اب موقع ہے کہ خطے میں ایک نیا سکیورٹی آرڈر تشکیل دیا جائے جس میں علاقائی ممالک شامل ہوں۔‘
امریکی میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایک سینیئر ریسرچر جم والش کا کہنا ہے کہ ’2018 میں جب امریکہ معاہدے سے دستبردار ہوا تو تب بھی ہر انٹیلی جنس ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ایران معاہدے کی پابندی کر رہا ہے۔‘

سال 2018 میں امریکہ جوپری معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

ایران نے اقوم متحدہ کے نگران ادارے آئی اے ای اے کے انسپیکٹرز کی ٹیموں کو معائنے کی اجازت دی اور ان تمام تقاضوں پر اتفاق کیا جن پر کسی اور ملک نے نہیں کیا۔
ریسرچر جم والش کے خیال میں گزشتہ دو ہفتوں کی لڑائی اور اس دوران جو کچھ بھی ہوا، اس کے باوجود ایران معاہدے کے لیے تیار ہے۔
ان کے خیال میں ایران اگر واقعی بم بنانا چاہتا تو وہ اب تک بنا لیتا، ’انتہائی افزودہ یورینیم تیار کرنا تکنیکی طور پر اس منصوبے کا سب سے مشکل حصہ ہے، اور ہتھیاروں کی تیاری انجینیئرنگ مسئلہ ہے۔‘
جم والش نے یہ بھی کہا کہ ایران 18سال سے جوہری پروگرام پر کام کر رہا ہے اور تنصیبات کو نشانہ بنانے سے معلومات اور سینٹری فیوجز تیار کرنے کے علم کو تباہ نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا اس مسئلے کا حل عسکری نہیں ہے۔

 

شیئر: