پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے ورچوئل بلڈ بینک کو روزانہ کی بنیاد پر خون کے عطیات کے لیے مختلف نوعیت کی کالز موصول ہوتی ہیں لیکن چند روز قبل آنے والی ایک کال نے وہاں موجود افسران کو حیرت میں ڈال دیا۔
کال کرنے والے نابینا شہری نے 15 پر کال کرتے ہوئے اپنا او نیگیٹو خون فروخت کرنے کی پیش کش کی تھی، یہی شہری چند روز قبل ایک چار دن کی بچی کی جان بچانے میں پیش پیش رہا۔
مزید پڑھیں
-
ڈوبتے کو بچانے والا ’دریائے سوات کا محافظ‘ محمد ہلالNode ID: 891559
حکومت پنجاب نے یکم جنوری 2025 سے ورچوئل بلڈ بینک قائم کر رکھا ہے جو عوام کو ہنگامی بنیادوں پر خون کی فراہمی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ورچوئل بلڈ بینک کے انچارج محمد عمیر حمزہ کے مطابق اب تک ایک لاکھ سے زائد شہری اس نظام کے تحت رجسٹر ہو چکے ہیں اور قریباً 40 ہزار مریضوں کو خون کی فراہمی میں سہولت دی جا چکی ہے۔
اس حوالے سے محمد عمیر بتاتے ہیں ’ہمیں روزانہ ایسی کالز موصول ہوتی ہیں اور ہم ضرورت مند مریضوں کو ڈونرز فراہم کرتے ہیں۔ زیادہ تر ڈونرز پولیس کے جوان ہیں جو رضاکارانہ طور پر خون دیتے ہیں۔‘
اس دن موصول ہونے والی کال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی لیکن کال کرنے والے کی مجبوری اور انداز نے افسر کو چونکا دیا۔
یہ کال ایک نابینا شہری شعیب احمد نے کی تھی جنہں نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ حالات کے تحت پہلے بھی خون فروخت کر چکے ہیں، تاہم اہلکاروں نے سمجھایا کہ ورچوئل بلڈ بینک میں خون سے متعلق سرگرمیاں رضاکارانہ طور پر انجام پاتی ہیں۔
شعیب احمد بتاتے ہیں کہ ’مجھے دوست نے بتایا تھا کہ میں ون فائیو پر کال کر کے اپنا خون بیچ سکتا ہوں۔ میں نے 15 پر کال کی تو مجھے بتایا گیا کہ خون کے عوض پیسے نہیں دیے جاتے۔‘
نابینا شہری کے مطابق انہوں نے اپنا نام رجسٹر کروا دیا اور سوچا کہ جس کو خون عطیہ کروں گا، انہی سے پیسے لے لوں گا۔
فون پر موجود افسر نے انہیں سمجھایا کہ ورچوئل بلڈ بینک میں خون خریدنے یا بیچنے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے اور یہ نظام رضاکارانہ طور پر چلتا ہے۔

اسی دوران بلڈ بینک کو ایک ہنگامی کال موصول ہوئی کہ لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں چار دن کی ایک بچی خون کی شدید کمی کے باعث انتہائی نازک حالت میں ہے اور اسے فوری طور پر او نیگیٹو خون درکار ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق تاخیر کی صورت میں بچی کے دماغ پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے تھے یا جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
محمد عمیر حمزہ اس حوالے سے بتاتے ہیں ’ہم نے فوراً شعیب سے رابطہ کیا کیونکہ اس کا بلڈ گروپ او نیگیٹو تھا جو بہت نایاب سمجھا جاتا ہے۔ وہ فوراً تیار ہو گئے اور ہسپتال جا پہنچے۔‘
شعیب نے ہسپتال میں کم سن بچی کو خون عطیہ کر دیا۔
پنجاب سیف سٹی اتھارٹی، ورچوئل بلڈ بینک میں ڈونرز سے خون دینے کے بعد فیڈ بیک لیا جاتا ہے۔ جب ان سے فیڈ بیک لیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ خون عطیہ کر کے آگئے ہیں۔
محمد عمیر کے بقول ’شعیب نے ہمیں اپنی پوری کہانی بتا دی کہ کس طرح انہوں نے پہلے اپنا خون بیچا اور اس بار بھی وہ اسی نیت سے ہسپتال گئے تھے۔‘
’ہسپتال پہنچ کر شعیب نے جب دیکھا کہ چار دن کی ننھی بچی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے تو انہوں نے پیسوں سے متعلق سوال دل ہی میں دَبا لیا۔‘

نابینا شہری شعیب احمد لاہور جلو کے قریب مقیم ہیں۔
حال ہی میں ان کے والدین انتقال کر گئے ہیں جبکہ ان کی چار بہنوں میں سے دو بہنیں بھی نابینا ہیں۔
شعیب احمد اپنے خاندان سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’میں صبح جلو سے لے کر ریلوے سٹیشن تک پیدل سفر کرتا ہوں۔ میرے پاس نیلے رنگ کی تھیلیاں ہوتی ہیں۔ میں ان میں نمکو اور کھانے پینے کی دیگر اشیا فروخت کرتا رہتا ہوں۔‘
’میری ایک بہن کی شادی ہوگئی ہے جبکہ والدین کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں گھر کا واحد کفیل ہوں۔ حال ہی میں گھر کی بجلی کا بل بہت زیادہ آیا جس کی وجہ سے میں خون بیچنا چاہتا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ہسپتال میں بچی کی حالت دیکھ کر میں نے اپنا یہ خیال ترک کر دیا اور بغیر کسی معاوضے کے خون عطیہ کر دیا جس کی بدولت بچی کی جان بچ گئی۔
شعیب احمد کی یہ کہانی سننے کے بعد انہیں سیف سٹی اتھارٹی، ورچوئل بلڈ بینک بلایا گیا جہاں انہوں نے اپنی پوری کہانی اعلٰی افسران کو سنائی۔
جب شعیب نے اپنی پوری کہانی وہاں بیان کی تو افسران اس صورت حال اور اُن کے فیصلے سے متاثر ہوئے۔













