چترال میں 15 سالہ دلہا کی محبت کی شادی: علاقائی روایت یا قانوناً جرم؟
جمعہ 28 نومبر 2025 13:42
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
خیبرپختونخوا کے پُرفضا مگر قدامت پسند ضلع اَپر چترال میں ایک کم عمر لڑکے کی پسند کی شادی نے سماجی اور قانونی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
رائین گاؤں کے 15 سالہ طالب علم کی محبت کی شادی نہ صرف مقامی رسم و رواج اور خاندان کی رضامندی سے انجام پائی بلکہ بستی کے بزرگوں نے بھی اسے خوشی سے قبول کیا۔ تاہم اس واقعے نے ایک بار پھر سوال اٹھا دیا ہے کہ کم عمری کی شادی کے بارے میں مقامی روایات اور ریاستی قانون کے بیچ توازن کہاں کھڑا ہے؟
ضلع بھر میں اس نکاح پر جاری بحث میں ایک جانب اسے ’محبت کی کامیابی‘ قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب قانونی ماہرین اس اقدام کو قابلِ سزا جرم سمجھتے ہوئے سنجیدہ خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔
رائین گاؤں کے میٹرک کے طالب علم مجتبیٰ احمد نے پسند کی لڑکی سے شادی کے لیے والدین سے اصرار کیا۔ دو ماہ بعد والدین نے بالآخر لڑکی کا رشتہ مانگا اور شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔
شادی باقاعدہ علاقے کے رسم و رواج کے مطابق ہوئی۔ کم عمر دلہا کے ہمراہ باراتی لڑکی کے گھر گئے اور روایتی طریقے سے رخصتی ہوئی۔ دلہن کو گھر لانے کے بعد دعوت ولیمہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔
مقامی نوجوان جنید احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دلہن عمر میں لڑکے سے دو سال بڑی ہے جس کا تعلق تورکہو کے کسی اور گائوں سے ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’نوجوان کی شادی میں گاؤں کے تمام بزرگوں نے شرکت کی۔ کسی نے اس شادی پر اعتراض نہیں کیا بلکہ کم عمر دلہے کے فیصلے کو سراہا۔‘
نوجوان جنید کے مطابق چترال میں کئی نوجوانوں نے محبت کی شادی میں ناکامی پر خودکشی جیسا انتہائی اقدام کیا اور اپنی جان لے لی مگر اس نوجوان نے نکاح کرکے سنت زندہ کیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔
چترال کے رہائشی ولید خان کی رائے ہے کہ ’مجتبیٰ احمد کم عمر ہے جو پاکستان کے قانون کے مطابق شادی کرنے کا اہل نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لڑکی کی عمر بھی شادی کے لیے کم ہے مگر کسی ادارے نے شادی کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔‘
اس شادی کے بعد ہمارے یہاں کم عمر نوجوانوں میں شادی کا رجحان فروغ پائے گا اور جو صاحبِ جائیداد ہیں ان کے لیے تو یہ مسئلہ نہیں ہے مگر غریب والدین کے لیے یہ رجحان پریشانی کا باعث بن جائے گا۔
ولید خان چترالی کہتے ہیں کہ ’کم عمری کی شادی کے کلچر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔‘
دوسری جانب نصراللہ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں کم عمری کی شادی جرم ہے جسے روکنے کے لیے قانون موجود ہے۔ قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی پر والدین اور سرپرستوں کے لیے قید اور جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ عدالت کو کم عمری کی شادی کے معاملات 90 روز میں نمٹانے کا پابند کیا گیا ہے۔‘
چترال سے تعلق رکھنے والے وکیل شیر حیدر ایڈووکیٹ کا مؤقف ہے کہ ’چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے تحت لڑکا اور لڑکی کی عمر 18 سال ہونی چاہیے تاہم اسلام کی رو سے دونوں کو نکاح کے وقت عاقل اور بالغ ہونا چاہیے جب کہ عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔‘
لڑکا پندرہ اور لڑکی چودہ سال کی عمر میں بھی بالغ ہوسکتے ہیں اسی لیے شریعت کے مطابق چترال کے نوجوان کا نکاح ہوچکا ہے جس میں کچھ بھی غیرشرعی نہیں ہے۔
ضلعی انتظامیہ کا مؤقف
ڈپٹی کمشنر اَپر چترال محمد عمران یوسفزئی نے مؤقف اپنایا کہ ’شادی کا واقعہ ابھی ان کے علم میں آیا ہے جس کی تفتیش کی جارہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ضلعی انتظامیہ کی ٹیم نوجوان کے گھر جائے گی جہاں قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کارروائی کی جائے گی۔‘
