Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بالی وڈ کے اصلی ’بھائی جان‘ محمود، جنہوں نے امیتابھ بچن اور جیتیندر کو سٹار بنایا

محمود نے دلیپ کمار سے بھی پہلے فلم انڈسٹری میں قدم رکھ دیا تھا (فوٹو: بالی وڈ ہنگامہ)
انڈین سینما کے سنہرے دور میں جب دلیپ کمار، راج کپور، دیو آنند جیسے ستارے رومانس کے جادو بکھیر رہے تھے، لوگوں کو جذباتی کر رہے تھے اور رلا رہے تھے، اسی دور میں جانی واکر کے بعد اگر کسی ایک اداکار نے سب سے زیادہ لوگوں کی مسکراہٹ کو قہقہوں میں بدلا وہ صرف اور صرف محمود تھے۔
بالی وڈ کے معروف سدا بہار اداکار جیتندر انھیں ’بھائی جان‘ کہتے تھے اور سلمان خان سے قبل وہ بالی وڈ کے اصلی بھائی جان تھے۔
ایک انٹرویو کے دوران وہ بتاتے ہیں کہ ایک فلم کی شوٹنگ جاری تھی اور انہیں خوب ہنسنا تھا لیکن انہیں بے ساختہ ہنسی نہیں آ رہی تھی اور وہ خود کو بے بس محسوس کر رہے تھے کہ اس دوران بھائی جان (یعنی محمود) انہیں نظر آ گئے۔
جیتندر نے محمود کو اپنی پریشانی بتائی تو انہوں نے کہا تم شاٹ کے لیے تیار ہو جاؤ جب تمہیں ہنسنا ہو تو سامنے والے دروازے کی طرف دیکھنا۔ جیتندر بتاتے ہیں کہ انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آیا لیکن انہیں محمود پر بھروسہ تھا کہ بھائی جان جینیئس ہیں کوئی نہ کوئی کرشمہ ضرور کریں گے۔
چنانچہ شاٹ کے لیے ریڈی کہا گیا اور جیتندر نے دروازے کی طرف دیکھا اور ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگے اور ان کی ہنسی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آخر بھائی جان نے ایسا کیا کیا کہ آپ کی ہنسی روکے نہیں رک رہی تھی تو جیتندر نے کہا کہ جب میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو بھائی جان بغیر پاجامے کے کمر کے بل جھکے ہوئے تھے۔
جیتندر کے مطابق وہ جینیئس تھے اور آج ہم انہی کو یاد کر رہے ہیں کیونکہ آج سے پورے 93 سال قبل آج ہی کے دن 29 ستمبر 1932 کو وہ بمبئی میں ایک سٹیج آرٹسٹ ممتاز علی کے گھر پیدا ہوئے۔
یوں تو انہوں نے چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر اس فلم میں کام کیا جس فلم سے اشوک کمار کا اداکاری کی دنیا میں جنم ہوا۔ اور یہ 1943 میں ریلیز ہونے والی فلم ’قسمت‘ تھی جو اپنے زمانے کی سب سے کامیاب فلم ٹھہری۔ یعنی محمود نے دلیپ کمار سے بھی پہلے فلم انڈسٹری میں حادثاتی طور پر ہی سہی قدم رکھ دیا تھا۔
لیکن محمود کے سٹارڈم کا سفر بہت ہی ناہموار سا تھا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز مختلف اور عجیب و غریب ملازمتوں سے کیا۔ کبھی مرغیاں بیچیں، تو کبھی ٹیکسی چلائی اور یہاں تک کہ مینا کماری کے چھوٹے بھائی کو ٹیبل ٹینس میں ٹیوشن بھی دی تاکہ ان کا مقصد پورا ہو۔

گرو دت نے محمود کے حسِ مزاح کو دیکھتے ہوئے انہیں ایک چھوٹا سا مزاحیہ کردار پیش کیا (فوٹو: آئی ایم بی ڈی)

کہتے ہیں کہ محمود کی زندگی میں ادکاری حادثاتی طور پر داخل ہوئی۔ محمود ایک بار فلمساز اور اداکار گرو دت کے ساتھ ایک فلم کی شوٹنگ پر ایک ڈرائیور کے طور پر گئے تھے۔
گرو دت نے محمود کے حسِ مزاح اور چہرے کے تاثراتی رنگ و ڈھنگ کو دیکھتے ہوئے انہیں 1956 میں آنے والی فلم ’سی آئی ڈی‘ میں ایک چھوٹا سا مزاحیہ کردار پیش کیا۔
وہ خاصا مختصر سا منظر ان کے تعارف کے لیے کافی تھا۔ سامعین ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے، اور یوں انڈین سنیما کے ہردل عزیز کامیڈین میں سے ایک کا عروج شروع ہوا۔
یہاں یہ یاد رہے کہ جانی واکر کو بھی ان کے حسِ مزاح کی وجہ سے گرو دت نے ہی تلاش کیا تھا اور وہ اپنے زمانے کے چوٹی کے اداکار ثابت ہوئے۔
سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں روی کپور نامی ایک جدوجہد کرنے والے اداکار بس ایک بریک کی تلاش میں تھے۔ اس سے قبل انہوں نے چند معمولی کردار اور رقص کے مناظر کیے تھے لیکن نسبتاً نامعلوم ہی تھے۔ محمود، جو پہلے ہی اس وقت ایک ابھرتے ہوئے کامیڈین تھے، انہیں اس نوجوان کی صلاحیت پر یقین تھا۔ انہوں نے اس نوجوان اداکار کو اپنی ہوم پروڈکشن ’بوند جو بن گئی موتی‘ (1967) میں ایک کردار دیا اور انہیں یہ تجویز دی کہ وہ اپنا نام بدل کر کچھ ہیرو جیسا نام رکھ لیں۔

روی کپور نے جیتندر بن کر جنم لیا اور وہ انڈین سینما کے سدا بہار ہیروز میں شمار ہوتے ہیں (فوٹو: ڈریمز ٹائم)

اور وہاں سے روی کپور جیتندر بن کر جنم لیتے ہیں اور انڈین سینما کے سدا بہار ہیروز میں شمار ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں محمود کی مقبولیت اتنی بڑھ گئی تھی کہ پروڈیوسرز نے ان کے لیے پورے ذیلی پلاٹ لکھوانا شروع کر دیے اور ان کے کردار کو بڑھانے کی ضد کرتے جس سے بعض اوقات فلم کے ہدایتکاروں کو مایوسی ہوتی۔
معروف فلم ’پڑوسن‘ (1968) کی فلم بندی کے دوران، رشیکیش مکھرجی نے مبینہ طور پر ٹیم کے ساتھ مذاقاً کہا تھا کہ ’ہوشیار رہیں! اگر محمود کو ایک اور سین دے دیا گیا تو وہ پوری فلم کو لے اڑے گا!
اور ایمانداری کی بات ہے کہ یہ فلم سنیل دت سے زیادہ جنوبی ہند کے موسیقی کے استاد ’ماسٹر پللئی‘ کے طور پر کردار میں محمود نے دھوم مچا دی۔ ان کی گول گول گھومتی ہوئی آنکھیں، جنوبی ہند کا مبالغہ آمیز لہجہ، پرجوش رقص کے سٹیپس سنگ میل ثابت ہوئے اور ان کی یہ پرفارمنس اس قدر مشہور ہوئی کہ دہائیوں بعد بھی یہ کردار نقالی کے فنکاروں کے لیے ایک مثال اور حوالہ بنا ہوا ہے۔
امیتابھ بچن کو پہلا بڑا بریک
جیتندر کو بریک دینے والے محمود نے امیتابھ بچن کو بھی پہلا بڑا بریک دیا تھا اور یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ امیتابھ بچن اب خود ایک لیجنڈ ہیں، لیکن ایک زمانہ وہ تھا جب وہ فلموں میں ایک بریک کے لیے کوشاں تھے۔ اور محمود نے انہیں یہ موقع دیا تھا۔
جب کوئی بھی نئے آنے والے اداکار کو کاسٹ نہیں کر رہا تھا تو محمود نے انہیں 1972 میں آنے والی اپنی فلم ’بامبے ٹو گوا‘ میں ایک اہم کردار دیا، جو کہ ایک کامیڈی ایڈونچر تھی اور بہت ہٹ ہوئی۔ یہ فلم ’زنجیر‘ سے قبل امیتابھ کی سب سے ہٹ فلم تھی جس میں ان کے ساتھ ارونا ایرانی تھیں۔

امیتابھ بچن نے کہا کہ ’محمود کے پاس دیکھنے کی ایسی آنکھ تھی جو دوسروں کے پاس نہیں تھی۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

چنانچہ امیتابھ نے متعدد انٹرویوز میں محمود کی جانب سے ملنے والے سہارے کا اعتراف کیا ہے، ایک بار انہوں نے کہا کہ ’ان (محمود) کے پاس یہ دیکھنے کی ایسی آنکھ تھی جو دوسروں کے پاس نہیں تھی اور جو وہ کر سکتے تھے دوسرے نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے مجھ پر یقین کیا جب بہت کم لوگوں کو مجھ پر یقین تھا۔‘
وہ صرف مزاحیہ نہیں تھے بلکہ ایک انسان دوست اداکار تھے۔ اگرچہ وہ کامیڈی کے لیے سب سے زیادہ یاد کیے جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت بہت زیادہ متاثر کن تھی۔
سنہ 1974 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم ’کنوارہ باپ‘ ایک ایسی فلم ہے جو انہوں نے پولیو سے متاثرہ اپنے بیٹے کے لیے بنائی تھی اور اس کی جذباتی گہرائی کو ظاہر کیا تھا۔
انہوں نے پولیو ویکسینیشن کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے والی فلم میں ہدایت کاری اور اداکاری کی۔ ان کی کارکردگی دل کو چھونے والی اور حوصلہ افزا تھی جو یہ بتاتی ہے کہ وہ کامیڈین سے کہیں زیادہ ایک حساس طبیعت کے مالک ہیں۔
اس فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جب ایک جذباتی منظر کے بعد فلم کریو نے محمود کو ایک کونے میں تنہا پایا، جہاں وہ خاموشی سے رو رہے تھے۔ جب کسی نے پوچھا کہ کیا وہ ٹھیک ہیں تو اس نے صرف اتنا کہا کہ ’میں ادکاری نہیں کر رہا ہوں، میں اپنے بیٹے کو یاد کر رہا ہوں۔‘
ایک موقع پر بہت سے مرکزی اداکاروں سے انہیں زیادہ معاوضہ ملنے لگا تھا۔ کامیابی کے ساتھ ان کے ہاں تنہائی اور اکیلے پن کا بھی دور آیا جو اکثر کامیابی کے ساتھ آتا ہے۔ بعد کی زندگی میں وہ سکون اور لوگوں سے دوری کی تلاش میں تھوڑے دنوں کے لیے امریکہ چلے گئے اور پھر 1990 کی دہائی میں جب واپس آئے تو پھر وہ جادو نہیں جگا سکے جس کے لیے وہ جانے جاتے تھے۔

محمود کو ایک بار معاون اداکار اور چار بار بہترین کامیڈین کے ایوارڈ سے نوازا گیا (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

محمود نے 23 جولائی 2004 کو بمبئی کی چکاچوند سے بہت دور امریکہ کے شہر پنسلوانیا میں آخری سانسیں لیں، لیکن ان کی ہنسی کی میراث ابھی تک قائم ہے اور آنے والے اداکاروں کے فن کو انہیں معیار سمجھ کر پرکھا جاتا ہے۔
چنانچہ جہاں ہم جانی واکر کے نام پر جانی لیور کو دیکھتے ہیں وہیں ہم محمود کے نام پر جونیئر محمود کو بھی دیکھتے ہیں جو ان کی مقبولیت اور عظمت کا اعتراف ہے۔ انہیں بیسٹ کامیڈین کے بہترین فلم فیئر ایوارڈ کے لیے 19 بار نامزد کیا گیا جبکہ چھ بار بہترین معاون اداکار کے انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔
واضح رہے کہ بیسٹ کامیڈین کا ایوارڈ 1967 میں شروع ہوا تھا اور اس سے قبل محمود اپنے عروج پر تھے۔ بہرحال انہیں ایک بار معاون اداکار اور چار بار بہترین کامیڈین کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

 

شیئر: