Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جب لاشیں نکالی گئیں تو بچوں نے ہاتھ میں پراٹھے پکڑے ہوئے تھے‘

بونیر میں کئی مکانات مکمل طور پر سیلاب میں ڈوب گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے متاثرہ علاقے گوکند کے جنید خان ایک ہفتہ قبل یہ سوچ رہے تھے کہ 22 اگست جمعے کو لوگ ان کے ولیمے میں شریک ہوں گے اور شادی کی مبارکباد دے رہے ہوں گے۔
آج ہی کے دن لوگ ان کے ملبے میں تبدیل شدہ گھر آ تو رہے ہیں لیکن آٹھ اہل خانہ کی موت پر تعزیت کرنے کے لیے۔
جمعہ، 15 اگست کی صبح خیبر پختونخوا کے سرسبز ضلع بونیر کے لوگوں نے معمول کے مطابق دن کا آغاز کیا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ آنے والے چند گھنٹوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آنے والا ہے جو نہ صرف ان کی خوشیوں کو خاموشیوں میں بدل دے گا بلکہ برسوں تک ان کے ذہنوں پر اس کے نقش ثبت رہیں گے۔
جنید خان کے چچازاد بھائیوں کے مطابق وہ بظاہر ٹھیک نظر آتے ہیں لیکن کبھی اچانک پُرنم آنکھوں سے پہاڑ کی جانب اور کبھی گھر کے ملبے کو دیر تک تکتے رہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کلاؤڈ برسٹ اور اچانک آنے والے سیلاب نے ضلع بونیر، باجوڑ اور صوابی میں تباہی مچا دی ہے جہاں بعض خاندانوں کے 40 اور بعض کے 18 افراد پانی کی نذر ہو گئے۔ پورے کے پورے خاندان لمحوں میں اجڑ گئے اور دیہات ویران ہوگئے۔
پاکستان میں جاری مون سون کی شدید بارشوں کے باعث اب تک 759 افراد جان سے جا چکے ہیں۔ ان بارشوں سے آنے والے سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبر پختونخوا ہے جہاں ہلاکتوں کی تعداد 454 تک پہنچ چکی ہے۔
جنید خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی اور ملائیشیا میں مقیم بھائی کی شادی ایک ساتھ ہونا تھی۔ ’ہم سب گھر والے امی کے ساتھ بیٹھے شادی کی تیاریوں پر بات کر رہے تھے۔ میں امی کو بتا رہا تھا کہ شکر ہے سب کچھ لے آیا ہوں کیونکہ بارشیں ہو رہی ہیں۔ ہمیں کیا معلوم تھا اپنی قسمت کا۔
ان کے گھر کے آٹھ افراد جن میں ان کی والدہ، دو بہنیں، چھوٹا بھائی، بھابھی اور ان کے دو بچے اور ایک خالہ زاد بہن سیلاب میں بہہ گئے۔
میرا چار مہینے کا بھتیجا چارپائی سے بندھے کپڑے کے جھولے میں تھا۔ نیچے والے گھر سے پانی بہت اوپر آ چکا تھا۔ جیسے میں اپنے بھتیجے کو لینے کے لیے بھاگا تو اسی دوران ہمارا گھر سیلاب کی لپیٹ میں آ گیا۔ پانی کے ساتھ میں نئے گھر کی چھت تک پہنچ گیا، سب کچھ پانی پانی تھا۔ میں پانی کی لہروں کے ساتھ آگے بہہ گیا۔ جب مجھے ہوش آیا اور  ذہن پر زور ڈالا تو واپس گھر کی طرف بھاگا، جہاں صرف بڑے بڑے پتھر تھے۔ نہ ماں، نہ بہنیں، نہ بھابھی، کوئی نہیں تھا۔ میں پاگلوں کی طرح اپنی ماں اور فیملی کو ڈھونڈ رہا تھا، مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کہاں جاؤں۔‘

پاکستان میں جاری مون سون کی شدید بارشوں کے باعث اب تک 759 افراد جان سے گئے۔ (فوٹو: ریسکیو 1122)

جنید کے مطابق ’اس واقعے کے بعد ہر وقت خوف رہتا ہے۔ دل ایسے دھڑکتا ہے جیسے ابھی باہر نکل آئے گا۔ وہ منظر میری آنکھوں سے نہیں ہٹتا۔ مجھے بارش، آسمانی بجلی اور بچے کے رونے سے اب خوف آتا ہے۔ میں اندر سے ٹوٹ گیا ہوں۔‘
ان کے والد اس سانحے کے اگلے دن دبئی سے پہنچے تھے۔ ’ابو نے تو خوشیوں کے لیے آنا تھا لیکن وہ تو میتیں دفنانے کے لیے آئے۔ میری خالہ زاد شادی کی تیاریوں میں ہاتھ بٹانے کے لیے آئی تھی۔ ہم سب جمعے کے دن خوشی خوشی جمع تھے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ ان سب کا آخری دن ہوگا۔‘
جنید خان کی طرح سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچے اور خواتین صدمے اور خوف کا شکار ہیں اور بارشوں اور آسمانی بجلی کی گرج سے ڈر جاتے ہیں۔
بدھ کو ضلع صوابی کے علاقے دالوڑی گدون میں پہاڑ پر موجود ایک گھر سے جب آخری لاشیں نکالی گئیں تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔  یہ ایک ماں اور اس کے  چار بچوں کی لاشیں تھیں جو ناشتہ کرتے ہوئے ملبے تلے دب گئے تھے۔
اس خاندان کا سربراہ بھی بیرون ملک مقیم تھا جو اپنے پیاروں سے رابطہ نہ ہونے کے بعد گھر پہنچا تھا۔
امدادی کاموں میں شریک رضاکار اور گورنمنٹ ہائی سکول دالوڑئی کے ہیڈ ماسٹر سوار خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ جب لاشیں نکالی گئیں تو بچوں کے ہاتھ میں پراٹھے پکڑے ہوئے تھے۔ ’اس المناک حادثے کے بعد اس گھر کا سربراہ کبھی روتا ہے تو کبھی مکمل خاموش ہو جاتا ہے۔‘

ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی لاپتہ افراد کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’میرے خاندان کو بچا لو، سیلاب آ رہا ہے‘
ہیڈ ماسٹر سوار خان نے ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک خاندان کے 18 افراد میں سے صرف باپ بیٹی بچ سکے ہیں۔ والد ہسپتال میں نیم بے ہوشی کی حالت میں بار بار یہ آواز لگاتا ہے ’میرے خاندان کو بچا لو، سیلاب آ رہا ہے۔‘
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مقامی افراد، اساتذہ اور دیگر اضلاع کے نوجوانوں نے امدادی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ ضلع بونیر کے ایک سرکاری سکول کے استاد ابرار زمین بھی دیگر اساتذہ کے ہمراہ متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایسی لاشیں دیکھی ہیں جن کے اعضا موجود نہیں تھے اور لوگ انہیں اپنا سمجھ کر دفنا رہے تھے۔
ابرار زمین کے مطابق اس سانحے نے لوگوں کو اس قدر صدمے میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ جیسے گم سم ہو گئے ہیں، اور ان سے کچھ بولا بھی نہیں جاتا۔ ’ہم ایک نوجوان کو فون نمبر دے رہے تھے لیکن وہ اسے کونٹیکٹس میں محفوظ کرنے کے بجائے فون کا کیلکولیٹر کھول کر ٹائپ کرنے لگا۔‘
نفسیاتی امور کے ماہرین کے مطابق قدرتی آفات کے نتیجے میں آنے والے سانحات صرف جسمانی نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ متاثرہ افراد پر گہرے ذہنی اور نفسیاتی اثرات چھوڑ دیتے ہیں جو ایک طویل عرصے تک ان کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ضلع بونیر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔  (فوٹو: اے ایف پی)

چترال میں انٹرنیشنل میڈیکل کور کے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین صدمے کی حالت میں ہوتے ہیں اور جو واقعہ ان کے سامنے پیش آتا ہے، وہ بار بار ان کی نظروں کے سامنے آتا ہے۔ ’وہی منظر، وہی خوف اور وہی کیفیت محسوس کرتے ہیں جیسے وہ اس لمحے میں ہوں۔ ’خواتین، بچے اور بزرگ افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کی روزمرہ زندگی کا نظام یا ٹائم ٹیبل متاثر ہو جاتا ہے۔ جب بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں تو مسلسل ذہنی دباؤ اور عدام تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے جو ان کو کمزور کر دیتا ہے۔
پشاور کے معروف ماہرِ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین میں بڑی تعداد پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس آرڈر کا شکار ہو سکتی ہے اور اگلے چھ ماہ تک ان کی ذہنی حالت متاثر رہنے کا خدشہ ہے۔ ’اگر متاثرین کو بروقت نفسیاتی مدد فراہم کی جائے اور غذائی قلت سے بچایا جائے تو ان کی بحالی ممکن ہے۔ لیکن اگر فوری طور پر اقدامات نہیں لیے گئے تو یہ لوگ ایجیٹیڈ ڈپریشن میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ جس میں افسردگی، اداسی، دلچسپی ختم ہونے، بے چینی، چڑچڑا پن، ذہنی تناؤ اور جارحانہ رویہ شامل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عرفان کا کہنا ہے کہ ’2008 کے زلزلے کے متاثرین میں سے بعض اب بھی ذہنی مسائل کا علاج کرا رہے ہیں۔ ’آفات قدرتی ہوتے ہیں اور آپ اس کو روک نہیں سکتے۔ لیکن ان کے نفسیاتی اثرات سے بچنے کے لیے ریاست کی سطح پر پالیسی ہونی چاہیے تاکہ ذہنی بیماریوں سے نمٹا جا سکے۔ ان کے مطابق ’ہمیں سائیکائرسٹ اور ڈاکٹرز کی ٹیم بنانی چاہیے تاکہ متاثرہ افراد کو بروقت مدد کی جا سکے۔‘

شیئر: