سیلاب سے متاثرہ ضلع بونیر کو ’مِنی ملائیشیا‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
سیلاب سے متاثرہ ضلع بونیر کو ’مِنی ملائیشیا‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
جمعرات 21 اگست 2025 5:13
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
صوبہ خیبرپختونخوا کے شمال مشرق میں واقع ضلع بونیر اپنی قدرتی خوبصورتی، وسیع و عریض میدانوں، سرسبز پہاڑوں اور آبشاروں کی وجہ سے سیاحت کے لیے مشہور ہے۔ اس ضلع کی آبادی تقریباً 10 لاکھ ہے جو زیادہ تر دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔
بونیر کبھی سوات کی ایک تحصیل تھا، مگر 1991 میں اسے الگ ضلع کا درجہ دیا گیا۔
بونیر میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ اور ہندو برادری کے لوگ بھی بستے ہیں، جبکہ مسیحی برادری کے افراد بھی اس کے کچھ علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ یہاں کے لوگ پشتو اور گوجری زبان بولتے ہیں۔ ضلع کے مشہور سیاحتی مقامات میں پیر بابا، دیوانہ بابا، ایلم، چغرزی، سرملنگ، آسمانی موڑ، قادرنگر، مولا بانڈہ اور گوکند شامل ہیں۔
یہ ضلع قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے اور یہاں کے پہاڑوں میں ماربل، کوئلہ، یورینیم اور قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں۔
بونیر کی زرخیز زمین زراعت کے لیے بھی موزوں ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے بیشتر لوگ کھیتی باڑی سے منسلک ہیں۔ تاہم، بڑی تعداد روزگار کے لیے بیرون ملک بھی مقیم ہے۔
بونیر کو منی ملائیشیا کیوں کہا جاتا ہے؟
ضلع بونیر کو ’چھوٹا ملائیشیا‘ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے بہت سے لوگ روزگار کے لیے ملائیشیا میں مقیم ہیں۔
بونیر سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی شمیم شاہد نے اردو نیوز کو بتایا کہ، ’یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں پہلے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے، اس لیے لوگ ملائیشیا جایا کرتے تھے۔‘
والیٔ سوات کے دور میں غربت کے باعث بہت سے لوگ بونیر سے ملائیشیا ہجرت کر گئے اور وہاں محنت مزدوری کرنے لگے۔
شمیم شاہد کے مطابق ’1970 کی دہائی سے پہلے بونیر کے کئی نوجوان ملائیشیا میں آباد ہوئے، بونیر کے لوگ ملائیشیا میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز بھی رہے اور وہاں کی سیاسی جماعتوں میں بھی شامل ہیں۔‘
شکیل خان کے مطابق، ’ملائیشیا کے بعض لوگ پشتو بھی بول لیتے ہیں کیونکہ ان کے رشتہ دار بونیر کے پشتون خاندانوں سے ہیں۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
انہوں نے بتایا کہ دبئی اور خلیجی ممالک میں روزگار کے مواقع بڑھنے کے بعد لوگوں کی توجہ عرب ممالک کی جانب ہو گئی، لیکن آج بھی ملائیشیا کے اہم کاروباری افراد میں بونیر کے لوگ شامل ہیں۔
شادیاں اور ثقافتی روابط
بونیر کے شہریوں نے ملائیشیا میں شادیاں بھی کیں۔ ذاکر احمد بونیری کے مطابق، ’بہت سے بونیر کے لوگ ملائیشیا جا کر مقامی خواتین سے شادی کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں بونیر کے لوگوں کو ملائیشیا کی شہریت کارڈز دیے گئے تھے، مگر 2015 کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ اس کے بعد نوجوانوں نے وہاں جا کر شادیاں کیں۔‘
شکیل خان گذشتہ نو برسوں سے ملائیشیا کے دارالحکومت کولالمپور میں مقیم ہیں اور وہ بھی ملائیشیا کی ایک خاتون سے شادی کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بونیر کے کئی خاندانوں نے ملائیشیا میں شادیاں کی ہیں، اور ان کی تیسری نسل بھی وہاں پیدا ہو چکی ہے۔‘
شکیل خان کے مطابق ’ملائیشیا کے بعض لوگ پشتو بھی بول لیتے ہیں کیونکہ ان کے رشتہ دار بونیر کے پشتون خاندانوں سے ہیں۔ دونوں جگہ کے لوگ ایک دوسرے کی ثقافت کی قدر کرتے ہیں اور محبت و دوستی کا رشتہ قائم ہے۔‘
ملائیشیا کے اکثر سیاح جب پاکستان آتے ہیں تو بونیر کا ضرور رخ کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔
ملائیشیا میں روزگار کے مواقع
ذاکر احمد بونیری نے بتایا کہ، ’بونیر کے لوگ ملائیشیا میں مختلف کاروبار سے منسلک ہیں، خاص طور پر قالین، گارمنٹس، الیکٹرانکس اور موبائل شاپس کے شعبے میں۔‘
ضلع بونیر میں حالیہ سیلاب سے شدید نقصان کے بعد ملائیشیا میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں نے امدادی عطیات جمع کیے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
ٹریول ایجنسی کے مالک محمد ارسلان کے مطابق ’بونیر، شانگلہ اور سوات کے نوجوان پہلے ملائیشیا اور انڈونیشیا جانے کو ترجیح دیتے تھے، مگر ویزا پالیسی میں سختی کی وجہ سے اب جانا کم ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سال 2010 میں ملائیشیا کی کئی کمپنیوں نے بونیر کے نوجوانوں کو ورک ویزے جاری کیے، جو اب بھی وہاں کام کر رہے ہیں۔‘
کووڈ لاک ڈاؤن کے بعد سفری پابندیوں اور ڈی پورٹیشن کی وجہ سے کئی غیر قانونی تارکین وطن واپس بھیجے گئے۔
محمد ارسلان کے مطابق ’اب بونیر کے نوجوان دبئی اور شارجہ جانا زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں روزگار کے بہتر مواقع ہیں۔‘
بونیر میں سیلاب متاثرین کی امداد
ضلع بونیر میں حالیہ سیلاب سے شدید نقصان کے بعد ملائیشیا میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں نے امدادی عطیات جمع کیے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی امدادی مہمات چلائی گئی اور مقامی افراد کے ساتھ مل کر عطیات جمع کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ملائیشیا میں مقیم پاکستانی، خاص طور پر بونیر کے شہری، امدادی رقم مختلف اداروں کو بھیج چکے ہیں۔‘
واضح رہے کہ 15 اگست کو آنے والے سیلاب میں اب تک 225 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ 30 سے زائد افراد لاپتا بھی ہیں۔