Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی مصوّرہ بدور المالکی، ایک فنکارانہ روح جس نے غم کو تخلیق میں ڈھالا

مصوری سے بچپن کی جڑت آگے بڑھ کر بدور المالکی کی زندگی بھر کی جستجو بن چکی ہے (فائل فوٹو: انسٹا، بدور المالکی)
سعودی عرب کی وژول آرٹسٹ بدور المالکی فن کے میدان ایک منفرد شناخت کے ساتھ اُبھری ہیں جو اپنے ذاتی درد اور زندگی کو تجربات کو رنگوں میں ڈھال کر فن پاروں کے صورت میں دنیا کے سامنے لا رہی ہیں۔
عرب نیوز پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بدور المالکی کے والد نے ان کے بچپن ہی سے ان میں فن کی جوت جگا دی تھی۔
بدور المالکی کا کہنا ہے کہ ’میرے والد ایک آرٹسٹ تھے اور میرے بچپن پر ان کا بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔‘
’میں انہیں انتہائی لگن کے ساتھ رنگوں اور دیگر آلات کا استعمال کر کے مصوری کرتے دیکھی رہی۔ اس سے مجھے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ مصوری محض مشغلہ نہیں بلکہ یہ اظہار کی ایک قسم بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے آرٹ کو کبھی ان پر تھوپا نہیں بلکہ ان کی موجودگی ہی نے قدرتی طور پر بدور المالکی کو اس جانب موڑ دیا تھا کیونکہ وہ جان چکی تھیں کہ یہ ان کی شناخت کا جزو ہے۔

بدور المالکی کا کہنا ہے کہ اظہار کسی بھی ایک فنی مکتبِ فکر کی پابندی سے زیادہ اہم ہے (فائل فوٹو: بدور المالکی)

’حتیٰ کہ آج بھی میں جو فن پارہ تیار کرتی ہوں، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس میں میرے والد کی فنکارانہ روح کا کچھ حصہ شامل ہے۔‘
مصوری سے بچپن کی جڑت آگے بڑھ کر ان کی زندگی بھر کی جستجو بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب مجھے پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ مصوری صرف ایک مشغلہ نہیں ہے، وہ لمحہ تھا جب میں نے دیکھا کہ میری تصویریں لوگوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ اسی لمحے مجھے معلوم ہوا کہ یہ میری محبت ہے اور اظہارِ ذات کا ذریعہ بھی۔‘
بدور المالکی کا ماننا ہے کہ فن میں روح کو چھو لینے کی گہری طاقت ہوتی ہے جو اپنے کام کے لیے اُن کے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا کرتی ہے۔

بدور المالکی نے سعودی آرٹ کے منظرنامے سے متعلق امید کا اظہار کیا (فائل فوٹو: بدور المالکی، انسٹا)

بدور المالکی نے وضاحت کی کہ وہ اکثر غمگین اور تکلیف دہ موضوعات کی طرف مائل ہوتی ہیں بالخصوص ’لوگوں کے دلوں کو ہلا دینے والی‘ انسانی کہانیاں۔‘
اُن کا ماننا ہے کہ ایسے جذبات میں ایک توانائی ہوتی ہے جو لوگوں تک فن کے ذریعے پہنچائی جانی چاہیے۔
بدور المالکی نے وضاحت کی کہ وہ کسی مخصوص فنی مکتبِ فکر کی پیرو نہیں ہیں بلکہ ہر پینٹنگ میں اپنا منفرد انداز تخلیق کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ایسا انداز جو کہانی کے جذبات کی ترجمانی کرے اور احساسات کو ان کی سب سے حقیقی شکل میں منتقل کرے، چاہے وہ ایک کام سے دوسرے کام میں تبدیل ہی کیوں نہ ہو۔

بدور المالکی نے وضاحت کی کہ وہ اکثر غمگین اور تکلیف دہ موضوعات کی طرف مائل ہوتی ہیں (فائل فوٹو: بدور المالکی، انسٹا)

انہوں نے کہا ’اظہار کسی بھی ایک فنی مکتبِ فکر کی پابندی سے زیادہ اہم ہے۔ میری سعودی شناخت سب سے بڑھ کر میرے جذبات میں موجود ہے۔ میں ماحول، کہانیوں اور ان احساسات سے تحریک حاصل کرتی ہوں جو ہم نے محسوس کیے اور پھر میں انہیں اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میری فنکاری اس مقام کی روح کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس سے میں تعلق رکھتی ہوں۔‘
بدور المالکی نے سعودی آرٹ کے منظرنامے سے متعلق امید کا اظہار کیا اور نشاندہی کی کہ سعودی وژن 2030 کی ثقافت اور فنون کے لیے کی گئی کوششوں کی بدولت یہ ایک بے مثال ترقی کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جس نے فنکاروں کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔

بدور المالکی نے کہا ’میری خواہش ہے کہ دنیا میرے آرٹ کے ذریعے مجھے سُنے۔‘ (فائل فوٹو: بدور المالکی۔ انسٹا)

جب بدور المالکی نے اپنے کریئر کا آغاز کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ فنکاروں کے لیے خاطر خواہ معاونت موجود نہیں تھی۔
لیکن انہوں نے ان تمام چینلجز )جن میں طلاق جیسا ذاتی المیہ بھی شامل ہے( کو اپنی تخلیقی صلاحیتیوں کے لیے ایندھن بنا لیا اور اپنی تکیمل پانے والی ہر پینٹنگ کو مشکلات پر ایک فتح کے طور پر دیکھا۔
بدور المالکی اس وقت ایک بین الاقوامی نمائش کی تیاری کر رہی ہیں جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ یہ اُن کی شناخت اور کہانیوں کی عکاس ہو گی۔

بدور المالکی کے مطابق ان کے والد ایک آرٹسٹ تھے اور ان کے بچپن پر ان کا بہت زیادہ اثر پڑا ہے (فائل فوٹو:بدور المالکی، انسٹا)

بدور المالکی نے کہا کہ ’میری خواہش ہے کہ دنیا میرے آرٹ کے ذریعے مجھے سُنے۔‘
’فن ہی میری آواز اور میرا وطن ہے۔‘

 

شیئر: