Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی مصورہ کا ڈیجیٹل آرٹ جس میں عربی شاعری کی جھلک ہے

ایک نسل سے دوسری نسل تک آرٹ منتقل کرنے میں تاریخی روایات زندہ رہتی ہیں۔ فوٹو انسٹاگرام
سعودی مصورہ غدا الشمری کا ڈیجیٹل آرٹ مملکت کی ثقافت اور معاشرے کی نمائش کرتا ہے جس میں لازوال عربی نغمے اور شاعری کی جھلک ہے۔
عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے غدا الشمری نے بتایا ہے کہ وہ شاعر کے جذبات کو اپنے فن پاروں میں سمونے کی کوشش کرتی ہیں جب کہ متاثرکن رومانوی شاعری خاص طور پر شامل ہے۔

سعودی آرٹسٹ  شاعر کے جذبات کو آرٹ میں سمونے کی کوشش کرتی ہیں۔ فوٹو انسٹاگرام

غدا الشماری کا پہلا فن پارہ 2017 میں سعودی پروڈیوسر ماجد العیسٰی کے ایک معروف سعودی نغمے کی ویڈیو سے متاثر تھا جس کا عنوان ’ہواجیس‘ ہے۔
نغمے کی اس ویڈیو میں خواتین کو کار چلاتے، سکیٹ بورڈنگ اور باسکٹ بال کھیلتے دکھایا گیا ہے۔ اس وقت خواتین کے لیے ایسی سرگرمیاں قابل رسائی نہیں تھیں۔
غدا الشماری نے بتایا کہ ’ھواجیس‘ کی ویڈیو میں روایتی عبایا میں خواتین کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
الشماری کے دیگر فن پاروں میں سے ایک ادبی شخصیت شہزادہ بدر بن عبدالمحسن کی نظم سے متاثر تھا، یہ نظم سعودی گلوکار طلال مدح نے پیش کی تھی۔

غدا کا آرٹ ثقافتی پہلو اور اس کے ورثے کو ظاہر کرتا ہے۔ فوٹو انسٹاگرام

اس فن پارے میں ایک شخص ایک عورت سے کچھ کہہ رہا ہے جس کی آنکھیں جھکی ہوئی ہیں، 1980  کے اس نغمے کا عنوان ’مجھے معاف کرو‘  عربی متن میں لکھا گیا ہے۔
سعودی آرٹسٹ غدا الشماری کے بہت سے فن پاروں میں خواتین کو نجدی طرز کے روایتی لباس اور گاؤن پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے جو مملکت کی ثقافتی خوبصورتی سے متاثر ہیں۔
فن پاروں میں مردوں کو غترہ ، شماغ اور بشت میں دکھایا گیا ہے، یہ روایتی عرب لباس عام طور پر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں پہنا جاتا ہے۔
غدا الشمری نے بتایا کہ سعودی ثقافت اور روایات نے میرے کام کو نمایاں کیا، میں وہی سوچتی تھی جو ماحول، رسوم و رواج اور روایات کے لحاظ سے میرے اردگرد تھا۔
سعودی آرٹسٹ جب اپنے آبائی شہر حفر الباطن سے  ریاض منتقل ہوئیں تو  دوست اور جاننے والوں نے فنی نقطہ نظر کو بلند کرنے کے لیے ان  کے خیالات کو نئی دنیا دکھائی۔

غدا الشماری اپنے فن پاروں کے لیے مخصوص رنگوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ فوٹو انسٹاگرام

مملکت میں بہت سی دلچسپ چیزیں ہیں مگر جو مجھے سب سے زیادہ مسحور کرتا ہے وہ ہر علاقے کا ورثہ، روایات، فن تعمیر اور منفرد انداز تکلم ہے جو مجھے مزید جاننے اور اس  کی عکاسی کرنے کے لیے بے تاب کرتا ہے۔
غدا الشماری نے شہزادی نورہ بنت عبدالرحمن یونیورسٹی کے کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن سے فائن آرٹس میں گریجویشن کی ہے اور وہ اپنے فن پاروں کے لیے چمکتے دمکتے مخصوص رنگوں کا انتخاب کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آرٹ سے میری محبت بچپن سے شروع ہوئی، میں نے 12 سال کی عمر میں یوٹیوب کے ذریعے اینیمی اور کارٹون کی ڈرائنگ پر تعلیمی نقطہ نظر سے توجہ مرکوز کی جس سے میرے فنی سفر کا آغاز ہوا۔

آرٹسٹ کے فن میں سعودی ثقافت اور روایات کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ فوٹو انسٹاگرام

انہوں نے مزید کہا کہ آرٹ کسی ملک کے ثقافتی پہلو اور اس کے ورثے کو ظاہر کرتا ہے، یہ ورثے کو محفوظ رکھنے اور ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے میں تاریخی روایات زندہ رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ آرٹ کو اقتصادی نقطہ نظر سے کسی ملک اور وہاں کی تہذیب دریافت کرنے میں دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کو رجوع کرنے کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
سعودی آرٹسٹ غدا الشمری کے بارے میں مزید جاننے  کے لیے ان کے انسٹراگرام   @gh.oi پر وزٹ کریں۔
 

شیئر: