Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیرمعیاری اور حادثے کی شکار گاڑیوں کی درآمد پر پابندی، مارکیٹ پر کیا اثر پڑے گا؟

حکومت کا موقف ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کے نام پر ناقص مٹیریل والی گاڑیاں منگوا لی جاتی ہیں (فائل فوٹو: غازی آٹوز، فیس بک)
پاکستان کی وزارتِ تجارت نے غیرمعیاری یا حادثے کا شکار ہونے والی گاڑیوں کی ملک میں درآمد پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ آئندہ ماہ سے کمرشل گاڑیوں کی درآمد پر 40 فیصد اضافی ٹیرف لاگو ہو گا۔
وزارتِ تجارت کے جوائنٹ سیکریٹری ٹیرف محمد اشفاق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت نے یہ پالیسی اس طرح ترتیب دی ہے کہ جب کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے گی تو اُس سال ان پر دیگر گاڑیوں کے مقابلے میں 40 فیصد زائد ٹیرف وصول کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اضافی ڈیوٹی ہر سال 10 فیصد تک کم ہوتی جائے گی۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ’حکومت نے صرف حادثے کا شکار ہونے والی گاڑیوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ ہر اس گاڑی کی درآمد پر پابندی لگائی ہے جو مقررہ معیار پر پورا نہ اترے۔ چاہے وہ حادثے کی وجہ سے خراب ہو یا کسی اور وجہ سے ناقص ہو، اگر وہ حکومتی معیار پر پورا نہیں اترتی تو اس کی درآمد کی اجازت نہیں ہو گی۔
حکومت کے اس فیصلے کے بعد استعمال شدہ گاڑیوں کے خریدار اور درآمد کنندگان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ معیار کا یہ نیا پیمانہ کیا ہو گا، اس کا تعین کون کرے گا اور اس پالیسی کے نتیجے میں مقامی آٹو مارکیٹ اور صارفین پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ بیرونِ ملک سے استعمال شدہ گاڑیوں کے نام پر اکثر ناقص مٹیریل والی گاڑیاں منگوا لی جاتی ہیں۔ اسی رجحان کی روک تھام کے لیے یہ نئی پالیسی نافذ کی جا رہی ہے۔
علاوہ ازیں ستمبر 2025 سے پانچ سال کے لیے کمرشل بنیادوں پر گاڑیوں کی درآمد کی اجازت ہو گی تاہم پہلے سال ان پر 40 فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی جو بتدریج کم ہوتی جائے گی۔

پاکستان میں ہر سال ہزاروں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد ہوتی ہیں (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

یہ فیصلہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد کیا ہے اور توقع ہے کہ آئندہ ماہ سے یہ پالیسی باقاعدہ طور پر نافذالعمل ہو جائے گی۔
پاکستان میں ہر سال ہزاروں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد ہوتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 اور 2022 میں پاکستان میں آٹھ سے نو ہزار استعمال شدہ گاڑیاں درآمد ہوئیں جبکہ 2022-23 میں یہ تعداد تقریباً چھ ہزار رہی۔ تاہم 2023-24 میں اس تعداد میں اضافہ ہوا اور تقریباً 25 ہزار یونٹس درآمد کیے گئے۔
آٹو موبائل انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے سخت قوانین سے استعمال شدہ گاڑیوں کے شوقین افراد کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور ان کی درآمد مزید مشکل ہو جائے گی۔ اگرچہ معیار کو یقینی بنانے کا حکومتی اقدام مثبت ہے لیکن یہ جانچنا کہ کون سی گاڑی واقعی معیاری ہے، ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری سے وابستہ معروف شخصیت سنیل منج کے مطابق حکومت کے لیے یہ تعین کرنا کہ کون سی گاڑی حادثے کا شکار ہے یا معیار پر پورا اترتی ہے، عملی طور پر فی الحال ممکن نہیں لگتا۔
سنیل منج کا کہنا تھا کہ ’بندرگاہوں پر گاڑی کی حالت کے بجائے اس کے چیسس نمبر کی بنیاد پر ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے اور معیار کی جانچ کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔

سنیل منج نے کہا کہ ’بندرگاہوں پر گاڑی کی حالت کے بجائے اس کے چیسس نمبر کی بنیاد پر ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے‘ (فائل فوٹو: میٹِس گلوبل)

سنیل منج نے کمرشل بنیادوں پر گاڑیوں کی درآمد پر 40 فیصد اضافی ڈیوٹی کے فیصلے کے حوالے سے بتایا کہ ’حکومت نے سرِدست اس کے لیے کوئی رولز جاری نہیں کیے لہٰذا اس فیصلے پر عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت استعمال شدہ گاڑیاں زیادہ تر بیگیج اور گفٹ سکیم کے تحت آتی ہیں۔ اگر کمرشل درآمد شروع ہوتی ہے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ حکومت اس نظام کو دیگر سکیمز کے ساتھ کیسے چلائے گی۔‘
ان کے مطابق یہ پالیسی فی الحال واضح نہیں ہے۔
آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن ان چیف میاں شعیب احمد نے غیرمعیاری یا حادثے کا شکار ہونے والی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔

آئندہ ماہ سے کمرشل گاڑیوں کی درآمد پر 40 فیصد اضافی ٹیرف لاگو ہو گا (فائل فوٹو: انڈیا مارٹ)

سنیل منج کا کہنا تھا کہ ’ایسوسی ایشن نے حکومت کو یہ تجویز دی تھی کہ گاڑیوں کی درآمد سے پہلے پری شپمنٹ انسپیکشن (جہاز پر چڑھانے سے قبل معائنہ) اور کوالٹی چیک کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ بندرگاہ پر پہنچنے سے قبل ہی گاڑی کے معیار کا علم ہو سکے۔
تاہم انہوں نے کمرشل طور پر درآمد کی جانے والی گاڑیوں پر 40 فیصد اضافی ڈیوٹی لگانے کے فیصلے کو غیرمعقول قرار دیا۔
ان کے مطابق اگر حکومت پہلے سال یہ بھاری ٹیرف عائد کرے گی تو زیادہ تر درآمد کنندگان اور صارفین اگلے سال تک انتظار کریں گے تاکہ ٹیرف کم ہو جائے۔ اس طرح نہ صرف حکومت کے ریونیو پر اثر پڑے گا بلکہ مارکیٹ میں غیریقینی کی کیفیت بھی پیدا ہو گی۔

شیئر: