Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لگتا ہے آ جائے گا‘، گٹر میں گرنے والے بچے کی تاحال راہ تکتا کراچی کا خاندان

ہر سال گٹروں کے علاوہ سیوریج نالوں میں گرنے کے واقعات میں بھی ہلاکتیں رپورٹ ہوتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی کے ایک گھر میں آج بھی اس سات سالہ بچے کی راہ تکی جا رہی ہے جو ایک کھلے گٹر میں گیا تھا۔
گلشن اقبال کے بلاک 13 ڈی میں رہنے والے عاطف الدین سات سالہ ابیہان کے کمرے میں اب بھی موجود ہیں جہاں بچے کے استعمال میں آنے والے کھلونے اور سامان بھی پڑا ہے۔ انتظار لمبا ہوتا جا رہا ہے اور جو ہنسی چند سال پہلے تک اس گھر میں گونجتی تھی کبھی دوبارہ نہیں گونجی۔
یہ صرف ایک گھر کا دکھ نہیں، بلکہ اس شہر بھر کی کہانی ہے جہاں ہر سال کھلے مین ہول بیسیوں زندگیاں نگل جاتے ہیں۔

’امی، ابیہان گٹر میں گر گیا ہے‘

میں رپورٹر کے طور پر جب عاطف الدین کے گھر پہنچا تو انہوں نے رُک رُک کر اس دن کی تفصیل بتائی کہ وہ ایک عام سا دن تھا۔ دونوں بیٹے گلی میں کرکٹ کھیلنے گئے۔ 15 منٹ بعد بڑا بیٹا دوڑتا ہوا آیا، کانپتی آواز میں بولا ، ’امی… ابیہان گٹر میں گر گیا ہے۔‘
یہ سنتے ہی گھر میں قیامت برپا ہو گئی۔ والدہ بینش عاطف روتی ہوئی باہر نکلیں۔ ابیہان کا بھائی بتا رہا تھا کہ چھوٹا بھائی مدد کے لیے ہاتھ ہلا رہا تھا، آوازیں دے رہا تھا، مگر کوئی اسے بچا نہ سکا۔

’ریسکیو والوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ لائن کہاں جاتی ہے‘

عاطف الدین کا کہنا تھا کہ ’کئی گھنٹے بعد ریسکیو ٹیم پہنچی لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ لائن کدھر جاتی ہے۔ چند گھنٹے کے بعد آپریشن بند کر دیا گیا۔ ہم نے احتجاج کیا تو دوبارہ مشینیں لائی گئیں، سڑک کھودی گئی لیکن بیٹے کا پتہ نہیں چل سکا۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا میرا بچہ حادثے میں لاپتا ہوا یا اس کا قتل ہوا؟ اگر قتل ہے تو قاتل وہ ادارے ہیں جن کی غفلت سے گٹر کھلے رہتے ہیں۔
ابیہان کی والدہ بینش عاطف کی حالت بیان کرنا مشکل ہے۔ بات کرتے ہوئے ان کی آنکھیں بھرتی ہیں اور خالی ہو جاتی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق دو سال میں 19 افراد کھلے گٹروں کا شکار ہوئے جن میں زیادہ تر بچے تھے (فوٹو: پرو کراچی)

’ابھی تک لاش نہیں ملی، دل کو سکون نہیں، یوں لگتا ہے جیسے وہ ایک روز دروازہ کھول کر واپس آجائے گا۔‘

حادثات کے اعداد و شمار

یہ واقعہ مئی 2023 میں پیش آیا، مگر اس کے بعد بھی کراچی میں کھلے گٹروں نے مزید زندگیاں چھین لیں۔
ریسکیو اداروں کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں کم از کم 19 افراد جن میں زیادہ تر بچے شامل تھے، کھلے گٹروں اور نالوں میں گر کر ہلاک ہوئے ہیں۔
2025 کے ابتدائی پانچ ماہ میں کم از کم چار بچے گٹروں کا شکار ہوئے۔ ان میں شاہ فیصل کالونی کا آٹھ سالہ ایباد اسد، مواچ گوٹھ کا تین سالہ عبدالرحمٰن، بلدیہ کا ایک لڑکا اور جمشید کوارٹرز کے چھ سالہ بچے سمیت دیگر شامل ہیں۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ یہ صرف انفرادی سانحات نہیں، بلکہ ایک مستقل اور جان لیوا خطرہ ہے۔

والدین کیا کہتے ہیں؟

شاہ فیصل کالونی میں ایک والد نے کہا کہ ’ہم نے بار بار ڈھکن لگانے کی درخواست کی، لیکن کسی نے دھیان نہیں دیا۔ یوں کھلا مین ہول ہمارے بچے کی قبر بن گیا۔‘
موچھ گوٹھ کے رہائشی نے بتایا کہ ’یہ پہلی ہلاکت نہیں اس سے پہلے کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے، ہر بار یہی کہا جاتا ہے کہ ڈھکن لگائیں گے، لیکن وعدوں پر عمل نہیں ہوتا۔‘

’اگر تمام کھلے گٹروں پر بروقت ڈھکن لگائے جائیں تو کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں (فوٹو: انسپلیش)

’یہ اتفاقی حادثات نہیں جرم ہے‘

ماہرین کے مطابق یہ محض اتفاقی حادثات نہیں بلکہ انتظامی ناکامی ہے۔ ان کے مطابق ہر ماہ 10 سے 15 افراد کھلے مین ہول یا نالوں میں گر کر زخمی ہوتے ہیں۔ ان میں سے 95 فیصد بچے ہوتے ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ کرمنالوجی کی سربراہ ڈاکٹر نائمہ سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شہر میں دیگر حادثات اور جرائم کی طرح یہ کھلے مین ہول میں گرنے کا معاملہ بھی جرم کے دائرے میں آتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آئے روز کہیں نہ کہیں سے یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ کھلے گٹر یا نالے میں گر کر کوئی زخمی ہوگیا ہے یا کسی کی موت ہوئی ہے، یہ انتظامیہ کی نااہلی ہے۔ اگر بروقت ڈھکن لگائے جائیں، لائنوں کی باقاعدہ میپنگ کی جائے اور ریسکیو عملے کو تربیت فراہم کی جائے تو ان ہلاکتوں کو روکا جا سکتا ہے۔‘

ماہرین کے مطابق کھلے گٹروں کی وجہ سے ہونے والے واقعات محض اتفاقی حادثات نہیں بلکہ انتظامی ناکامی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اداروں کی کارکردگی اور ذمہ داری

اداروں کے نمائندے اکثر کہتے ہیں کہ ہزاروں گٹروں پر ڈھکن لگا دیے گئے ہیں اور شہریوں کی شکایات پر فوری کارروائی کی جا رہی ہے۔ لیکن عملی طور پر صورتِ حال مختلف ہے۔ متعدد مقامات پر ڈھکن غائب ہیں، یا ایسے کمزور ڈھکن ہیں جو بوجھ برداشت نہیں کرتے۔
گزشتہ برس ایک مقدمے میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر ہوا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اداروں کی غفلت سے ہی یہ اموات ہو رہی ہیں۔
کراچی کے گٹروں نے ابیہان جیسے کئی بچوں کی زندگیاں نگل لی ہیں۔ ان کے والدین کے سوال آج بھی جواب مانگتے ہیں۔

شیئر: