ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان حمزہ شفقات نے کہا ہے کہ جلسے کی اجازت سہ پہر تین بجے دی گئی تھی اور اسے مغرب تک ختم ہونا تھا مگر ہدایات کے برخلاف اندھیرا ہونے تک جاری رہا۔
بدھ کو پولیس حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کوئٹہ دھماکے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی تین بار درخواست کے باوجود منتظمین نے جلسہ بروقت ختم نہ کیا جس کا خمیازہ جانی نقصان کی صورت میں ہمیں بھگتنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکا جلسہ گاہ سے تقریباً پانچ سو میٹر دوری پر قبرستان کے قریب کم روشنی والے مقام پر ہوا۔
انہوں نے دھماکے میں 15 افراد کی ہلاکت اور 45 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی اور بتایا کہ زخمیوں میں 32 کو شدید زخم آئے باقی معمولی زخمی ہیں۔
مزید پڑھیں
ان کا کہنا تھا کہ دھماکا خودکش تھا جس میں تقریباً آٹھ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا ۔ حملہ آور کی عمر 30 سال سے کم تھی جس کے اعضاء مل گئے ہیں، تاہم حملہ آور کی شناخت تاحال نہیں ہوئی۔
حمزہ شفقات نے کہا کہ دھماکے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے جس کا مطلب ہے کہ وہاں بھی پولیس اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ جلسے سے قبل تھریٹ موجود تھے جن سے منتظمین کو آگاہ کیا گیا تھا، اگر جلسہ وقت پر ختم ہوتا تو نقصان کم ہوسکتا تھا۔ جلسے کی سکیورٹی کے لیے 112 پولیس اہلکار تعینات تھے جس کی وجہ سے جلسہ گاہ کے اندر کوئی حملہ نہیں ہوا۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے کہا کہ صوبے میں پہلے ہی دفعہ 144 نافذ تھی اوراجتماعات پر پابندی تھی مگر بی این پی کے اصرار پر برسی کے موقع پر جلسے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئندہ مغرب کے بعد کسی بھی جلسے یا عوامی اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

حمزہ شفقات کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی رہنماؤں کو سکیورٹی فراہم کرنا مشکل ہوتا ہے اس لیے محکمہ داخلہ انہیں پرائیوٹ سکیورٹی گارڈز اور اسلحہ رکھنے کے لیے لائسنس جاری کرتی ہے۔ اہم حکومتی عہدے داروں اور شخصیات کی سکیورٹی کے لیے جلد قانون صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تاکہ یہ طے ہوسکے کہ کس کو کس درجے کی سکیورٹی فراہم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کی خامیوں پر اندرونی انکوائری جاری ہے اور وزیراعلیٰ براہِ راست اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی کی کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔ ان کے بقول ’حکومت نے شہدا کے لواحقین کے لیے فی کس15 لاکھ، شدید زخمیوں کے لیے 5 لاکھ اور معمولی زخمیوں کے لیے 2 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ رواں ماہ مزید دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں، 12ربیع الاول کے جلوس بھی ممکنہ ہدف ہو سکتے ہیں۔ نیکٹا سمیت اداروں کو 22 تھریٹس موصول ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سکیورٹی ادارے الرٹ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ مہینوں میں سکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کے 800 سے زائد منصوبے ناکام بنائے۔ جعفر ایکسپریس پر دوبارہ حملہ، مستونگ اور سوراب سمیت کئی اہم مقامات پر حملوں کی منصوبہ بندی تھی ۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال اگست میں 85 واقعات میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے. جبکہ اس سال بھی اگست میں اس طرز پر بڑے حملوں کا خطرہ تھا۔ صرف کوئٹہ میں 22 حساس اور سرکاری مقامات پر حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی مگر سکیورٹی اداروں نے تمام منصوبے بروقت ناکام بنا دیے اور کسی بھی سویلین کی موت نہیں ہوئی۔