رشی کپور: جن کی فلموں میں خواتین کا کردار زیادہ مضبوط رہا
جمعرات 4 ستمبر 2025 17:33
یوسف تہامی، دہلی
گذشتہ دنوں فلم بینوں کی ایک محفل میں انڈین فلموں پر بحث جاری تھی کہ کسی طرح فلم ’بوبی‘ کا ذکر نکل آیا اور پھر اس حوالے سے رشی کپور اور ڈمپل کپاڈیا کا بھی ذکر ہونے لگا۔
اور پھر ایک شخص نے کہا کہ ’رشی کپور کو کبھی بھی ان کی اداکاری کے لیے ان کا حق نہیں مل سکا۔ اس کے تو خون میں اداکاری تھی لیکن یہ اس کی بدقسمتی ہے کہ وہ ہمیشہ کسی کے سائے میں کھو جاتا تھا۔‘
یہ ملٹی سٹارر فلموں کی بات نہیں بلکہ وہ ان فلموں میں بھی ہیروئنز کے سائے میں کھو جاتے ہیں جو ان کی سولو موویز ہیں۔ مثال کے طور پر ’بوبی‘ ہی لے لیں۔ فلم کا نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ اداکارہ کے کردار پر مبنی فلم ہے۔ اسی طرح ’چاندنی‘ یا ’دامنی‘ لے لیں۔
ان کا بیان جاری تھا۔ کہنے لگے کہ ’پریم روگ‘ کو ہی لے لیں کہ وہ فلم کس کے گرد گھومتی ہے۔ یا ’نگینہ‘، ’حنا‘، ’بول رادھا بول‘، ’طوائف‘، ’ساگر‘، ’ایک چادر میلی سی‘، ’قرض‘ یا کوئی بھی فلم لے لیں۔
ہم سب کے پاس مسٹر وقار کی بات کو نہ چاہتے ہوئے بھی ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ آج ہم ان سب کا اس لیے ذکر کر رہے ہیں کہ رشی کپور آج ہی کے دن 73 سال قبل 4 ستمبر 1952 کو ممبئی میں فلمی دنیا کے معروف کپور خاندان میں پیدا ہوئے۔
وہ بالی وڈ کے ’شو مین‘، اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار راج کپور کے دوسرے بیٹے تھے۔ جس طرح فلمی خاندان میں پیدا ہونا ان کی قسمت تھی اسی طرح فلموں میں کم عمری میں ہی آجانا ایک اتفاق تھا۔
تاہم تقدیر صرف خاندانی رشتوں سے نہیں چمکتی اس کے لیے لگن اور جُنون ہونا چاہیے جو کہ رشی کپور میں تھا۔
اگرچہ رشی کپور 1970 میں آنے والی فلم ’میرا نام جوکر‘ میں ایک چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر فلمی دنیا میں انٹری کر چکے تھے اور بہترین چائلڈ آرٹسٹ کے نیشنل ایوارڈ کے مستحق قرار دیے گئے تھے لیکن کسی کو یہ گمان بھی نہ گزرا ہو گا کہ محض دو سال بعد وہ ایک ایسی فلم کے لیڈ اداکار ہوں گے جو راج کپور کی تمام محرومیوں اور ناکمیوں کا ازالہ کرے گی اور ایک ’کلٹ فلم‘ ثابت ہوگی۔
ہم اس سے قبل فلم ’بوبی‘ کی کہانی پر بات کر چکے ہیں لیکن یہاں اتنا بتانا ضروری ہے کہ ’میرا نام جوکر‘ کے پِٹ جانے کے بعد راج کپور تقریباً قلاش ہو چکے تھے۔ پھر انہوں نے فلم ’کل، آج اور کل‘ بنائی جس میں سارے گھر کے ہی اداکار یعنی پرتھوی راج کپور، رندھیر کپور، ببیتا اور خود راج کپور شامل تھے لیکن یہ فلم بھی اُن کے ہرجانے کی تلافی نہ کر سکی اور پِٹ گئی۔
اب کپور خاندان کو اس مصیبت سے نکالنے کے لیے کسی کرشمے کی ضرورت تھی۔ ان کے پاس کہانی تو تھی لیکن اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ وہ اس زمانے کے سپرسٹار راجیش کھنہ کی فیس ادا کرنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔
اس مایوسی کے درمیان رشی کپور ان کی امید کی کرن بن کر اُبھرے اور پھر راج کپور کے دن گویا لوٹ آئے۔
یہ فلم نہ صرف کامیاب رہی بلکہ اس کے گیت ’ہم تم اِک کمرے میں بند ہوں۔۔۔‘ یا ’جھوٹ بولے کوا کاٹے۔۔۔‘، یا پھر ’میں شاعر تو نہیں۔۔۔‘ نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔
اس کے لیے رشی کپور کو بہترین اداکاری کا فلم فیئر ایوراڈ ملا جو بعد میں متنازع ٹھہرا کیونکہ بعدازاں یہ انکشاف ہوا کہ انہوں نے یہ ایوارڈ 30 ہزار روپے رشوت دے کر حاصل کیا تھا جس کا حوالہ اُن کی سوانح میں ملتا ہے۔
اسی سال آنے والی فلم ’زنجیر‘ کے لیے امیتابھ بچن اس ایوارڈ سے محروم کر دیے گئے۔ بہرحال رشی کپور کی یہ فلم 1970 کی دہائی کی کامیاب ترین فلموں میں شامل رہی اور 1975 میں آنے والی فلم ’شعلے‘ کے بعد اس نے ہی باکس آفس پر سب سے زیادہ کمائی کی۔
’بوبی‘ کے بعد ان کی آنے والی فلم ’زہریلا انسان‘، ’راجا‘ اور ’زندہ دل انسان‘ یکے بعد دیگرے ناکام رہیں۔ لیکن پھر 1976 میں آنے والی فلم ’لیلی مجنوں‘ نے انہیں واپس پٹری پر ڈال دیا۔
یہ وہ دور تھا جب فلموں میں ملٹی سٹارر کا رواج شروع ہو چکا تھا اور فلم بینوں کا رجحان بدل چکا تھا اور ’اینگری ینگ مین‘ کا زمانہ آچکا تھا اور یہ روش اس قدر تیز تھی کہ اس میں بڑے بڑے سٹار بہہ گئے، یہاں تک کہ راجیش کھنہ بھی اس کی تاب نہ لا سکے۔
اسی سال رشی کپور کی آنے والی فلم ’کبھی کبھی‘ بھی کامیاب رہی لیکن چونکہ یہ فلم ملٹی سٹارر تھی جس میں امیتابھ بچن اور ششی کپور کے ساتھ راکھی اور وحیدہ رحمان تھیں تو ایسے میں انہیں یا نیتو سنگھ کو کتنی اہمیت مل سکتی تھی یہ سب کو معلوم ہے۔
نیتو سنگھ اور رشی کپور کی ملاقات اور شادی
بہرحال نیتو سنگھ اور رشی کپور کی ملاقات فلم ’زہریلا انسان‘ کے دوران ہوئی تھی۔ اس وقت نیتو سنگھ 14 سال کی تھیں اور وہ سیٹ پر رشی کپور کے مذاق اور چِڑانے سے تنگ رہتی تھیں۔
لیکن پھر دونوں اگلے سال آنے والی فلم ’کھیل کھیل میں‘ ایک ساتھ تھے۔ یہ فلم کالج کے لڑکوں کی زندگی پر مبنی تھی جو ’کھیل کھیل میں‘ خطرناک افراد کے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ فلم کامیاب رہی۔
اس کے بعد دونوں فلم ’کبھی کبھی‘ میں ایک ساتھ تھے۔ اس دوران دونوں میں قُربتیں بڑھنے لگیں اور دونوں نے ڈیٹ کرنا شروع کیا یہاں تک کہ پانچ سال بعد 1980 میں انہوں نے شادی کر لی۔
دونوں نے ایک ساتھ ایک درجن فلمیں کی ہیں جس میں سے آدھی تو فلاپ رہیں جبکہ ’کبھی کبھی‘ کو چھوڑ کر باقی فلموں نے بھی کامیابی کا کوئی پرچم نہیں لہرایا۔
ان دونوں کی فلموں میں ’زہریلا انسان‘، ’زندہ دل‘، ’کھیل کھیل میں‘، ’دی رن اویز‘، ’کبھی کبھی‘، ’امر اکبر اینتھونی‘، ’دوسرا آدمی‘، ’انجانے میں‘، ’پتی پتنی اور وہ، جھوٹا کہیں کا‘، ’دنیا میری جیب میں‘ اور ’دھن دولت‘ شامل ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ ساری فلمیں شادی سے پہلے ایک ساتھ کیں کیونکہ کپور خاندان کا ایک زمانے تک یہ شیوہ تھا کہ ان کے خاندان کی عورتیں فلموں میں کام نہیں کرتیں۔
اس روایت کو بعد میں رندھیر کپور کی اہلیہ اور کپور خاندان کی بہو ببیتا نے چیلنج کیا اور اُن کی بیٹیوں کرشمہ کپور اور کرینہ کپور نے فلموں میں دُھوم دھام کے ساتھ قدم رکھا۔
سنہ 1980 کے بعد آنے والی فلم ’پریم روگ‘ نے ایک بار پھر دُھوم مچائی لیکن لوگ رشی کپور سے زیادہ پدمنی کولہاپوری سے متاثر ہوئے۔
دلیپ کمار سے موازنہ
اس فلم کی کہانی بھی بہت مزیدار ہے، جب فلم کے ہدایت کار راج کپور نے رشی کپور کو سخت اور سُست کہا اور چیخ کر بولے ’مجھے یوسف چاہیے، یوسف‘۔
دراصل وہ رشی کپور میں وہ جوہر نہیں دیکھ رہے تھے جو انہوں نے یوسف یعنی کبھی دلیپ کمار میں دیکھے تھے۔
وہ رشی کپور ٹُوٹے ہوئے دل والے عاشق کے شدید جذبات کو پکڑنے میں ناکامی سے مایوس تھے، اور وہ چاہتے تھے کہ وہ دلیپ کمار کے طاقتور تاثرات پیدا کریں۔
اور ایسے ہی ایک منظر کی فلم بندی میں انہوں نے چیخ کر کہا تھا: ’مجھے یوسف چاہیے‘ یعنی میں اس جیسی اداکاری چاہتا ہوں۔
رشی کپور نے 100 سے زیادہ فلمیں کیں لیکن 2000 کے بعد سے وہ ہیرو کے بجائے کیریکٹر رول میں آگئے تھے۔ وہ فلم انڈسٹری اور سیاست و سماج کے رویوں پر اپنی بے باک باتوں کے لیے بھی جانے جاتے تھے۔
رشی کپور کی سوانح ’کھلم کھلا‘ اس کا اعتراف ہے جس میں انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بات کہی ہے۔ انہوں نے اپنے والد کے نرگس اور اداکارہ ویجنتی مالا کے ساتھ شادی کے ماورا رشتوں پر بات کی ہے۔
انہوں نے نیتو سنگھ سے پہلے ایک پارسی لڑکی یاسمین سے دیوانگی کی حد تک محبت کا اعتراف بھی کیا ہے۔
رشی کپور نے امیتابھ بچن پر بھی کُھل کر تنقید کی کہ انہوں نے اپنے کسی معاون فنکار کو کبھی نہیں سراہا جبکہ بہت سے ایسے تھے جو اُن سے اچھی اداکاری کرتے تھے۔
انہوں نے راہل گاندھی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور سیاست یا فلم میں اقربا پروری پر بات کی۔ بہرحال جب انہوں نے ناکامی کا منھ دیکھا تو اس کا غصہ نیتو سنگھ پر نکالا۔
سنہ 2018 میں ان کو کینسر کی تشخیص ہوئی جس کے بعد انہوں نے امریکہ میں اس کا علاج کرایا، لیکن پھر ایک سال بعد وہ مہلک مرض لوٹ آیا اور پانچ سال قبل 30 اپریل 2020 کو اس اداکار نے آخری سانس لی جن کی اداکاری کو اس قدر پذیرائی نہیں ملی جو انہیں ملنا چاہیے تھی۔