قومی ایئر لائن پی آئی اے کی جانب سے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے غیرمؤثر فلائٹ آپریشن چلانے کا انکشاف ہوا ہے جہاں صرف ایک یا دو مسافروں کے ساتھ سینکڑوں پروازیں ملکی اور غیرملکی شہروں کے لیے روانہ کی گئیں۔
یہ انکشاف جمعے کے روز آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں سامنے آیا ہے جو پی آئی اے کے آڈٹ پر مبنی ہے۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2021 سے 2023 کے دوران ناقص حکمت عملی کے باعث 816 پروازیں ایسی چلائی گئیں جن میں صرف ایک مسافر تھا، جبکہ 302 پروازیں ایسی تھیں جن میں دو مسافر سوار تھے، اور اس طرح کم مسافروں والی پروازوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار 118 بنتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
ایوی ایشن آڈٹ کیا ہے اور کسی بھی ملک کے لیے یہ کتنا ضروری ہے؟Node ID: 871031
آڈٹ رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف سال 2021 سے 2023 کے آڈٹ کے دوران ہوا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ آپریشنل منصوبہ بندی اور وسائل کے غیرمؤثر استعمال کی مثال ہے، کیونکہ کم مسافروں کے باوجود پروازیں منسوخ کر کے ٹکٹ کی رقم واپس کرنے کے بجائے انہیں چلایا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ سے اس معاملے کی وجوہات بتانے کے لیے بارہا رابطہ کیا گیا، لیکن نہ تو کوئی جواب موصول ہوا اور نہ ہی ادارے نے خود سے کوئی تحقیقات کیں۔
رپورٹ میں آڈٹ کی جانب سے فلائٹ پلاننگ، نیٹ ورک مینجمنٹ اور شیڈولنگ کے ذمہ دار عہدیداران پر اس تمام تر معاملے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ مینیجر، جنرل مینیجر اور متعلقہ حکام کی ناقص منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے باعث انتہائی کم مسافروں کے ساتھ ایک ہزار 118 پروازیں چلائی گئیں، اور پروازیں منسوخ کر کے ٹکٹ کی رقم واپس کرنے کے بجائے انہیں آپریٹ کیا گیا جو آپریشنل پلاننگ اور کاسٹ مینجمنٹ میں کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
آڈٹ حکام نے یہ تجویز دی ہے کہ مؤثر فلائٹ پلاننگ، آپریشن کنٹرول اور باقاعدہ کارکردگی جائزے کے ذریعے نقصانات کم کیے جائیں۔
اردو نیوز نے پی آئی اے کے ترجمان سے بھی اس حوالے سے مزید جاننے کی کوشش کی ہے لیکن ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔
مزید برآں یہ معاملہ سمجھنے کے لیے پی آئی اے کے سابق سربراہ عرفان الٰہی سے بھی گفتگو کی گئی ہے اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ کم مسافروں کے ساتھ فلائٹس چلانے سے کیا مراد لی جائے؟
عرفان الٰہی نے سب سے پہلے وضاحت کی کہ عام طور پر مسافر پروازوں کے لیے 75 فیصد مسافروں کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے، اور اسی صورت میں کوئی فلائٹ مالی طور پر موزوں رہتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے یا دیگر ایئرلائنز میں اگر کسی ایک پرواز میں مسافروں کی تعداد کم ہو تو اسے آپریشنل مسئلہ کے طور پر تاخیر کر کے اگلی پرواز میں اس لوڈ کو شامل کر دیا جاتا ہے، تاکہ کم سواروں کے لیے علیحدہ پرواز نہ چلائی جائے۔
انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی سفارش پر اس طرح کی خاص فلائٹ چلائی گئی ہو، لیکن اس کی وجہ کوئی بھی ہو، اس طرح کے فیصلے سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔
لیکن انہوں نے اس امکان کا بھی اظہار کیا کہ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ جب آپ انٹرنیشنل فلائٹس پر جاتے ہیں تو ایک طرف سے لوڈ کم ہوتا ہے لیکن واپسی پر آپ کا لوڈ ایڈجسٹ ہو جاتا ہے اور اس طرح آنے جانے کی پرواز مجموعی طور پر مناسب منافع اور ریکوائرمنٹس کے ساتھ مکمل کر لی جاتی ہے۔
آخر میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر ان فلائٹس کا تین ہندسوں پر مشتمل نمبر ہے جیسے کہ 795 یا 195 تو یہ روٹین کی فلائٹس ہیں، لیکن اگر یہ چار ہندسوں کی فلائٹس ہیں تو پھر یہ سپیشل فلائٹس چلائی گئی ہیں۔