لاہور کے مضافات سے ملنے والا ڈھانچہ، پولیس خاتون کے قاتلوں تک کیسے پہنچی؟
لاہور کے مضافات سے ملنے والا ڈھانچہ، پولیس خاتون کے قاتلوں تک کیسے پہنچی؟
بدھ 10 ستمبر 2025 6:04
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
ایس پی کے مطابق ’بجلی کا بل ہمارے لیے واحد چیز تھی جس سے ہم لاش کی شناخت کر سکتے تھے‘ (فائل فوٹو: لاہور پولیس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے مضافاتی علاقے کاہنہ میں ہجوم انسانی ڈھانچے کے گرد جمع تھا اور پولیس کا انتظار کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب پولیس آئی تو اس انسانی ڈھانچے کو ایک ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال بھیج دیا گیا۔
ہڈیوں کے اس ڈھانچے سے پتا لگانا بھی مشکل تھا کہ یہ کسی مرد کا ہے یا عورت کا۔ پولیس نے تفصیلات حاصل کرنے کے بعد ایف آئی آر میں اس انسانی ڈھانچے سے متعلق ابتدائی معلومات درج کر لیں۔
تھانہ کاہنہ کے انچارج انویسٹیگیشن زاہد سلیم بتاتے ہیں کہ ’ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیش کا عمل شروع ہوا تو ہماری ٹیم ایک مرتبہ پھر اس جائے وقوعہ پر گئی جو آبادی سے تھوڑا باہر ویرانے میں تھا۔‘
’ہمیں یہ معلومات تو مل چکی تھیں کہ یہ لاش ایک عورت کی تھی اور اس کی موت ایک ماہ قبل ہوئی تھی۔ ویسے تو ایک ماہ میں لاش ڈھانچہ نہیں بنتی لیکن شاید جانوروں اور پرندوں نے اِس کا گوشت نوچ کھایا تھا۔‘
پولیس کو اس جگہ سے جہاں لاش برآمد ہوئی تھی کچھ نقدی اور بجلی کا ایک بل بھی ملا تھا جو بارش کے باعث مکمل طور پر خستہ حال ہو چکا تھا۔
ایس پی انویسٹیگیشن ماڈل ٹاؤن ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’بجلی کا یہ بل ہمارے لیے واحد چیز تھی جس سے ہم اس لاش کی شناخت کر سکتے تھے، تاہم یہ بل اتنا خراب ہو چکا تھا کہ اس سے معلومات لینا بہت دُشوار تھا۔‘
’اس لیے ہم نے لیسکو سے مدد لی اور اس بل میں درج نمبروں سے اس گھر کا پتا چلانے کی کوشش کی جس کا یہ بل تھا، چونکہ کئی نمبر مٹے ہوئے تھے اس لیے فوری طور پر کچھ نکلنا مشکل تھا۔‘
سگے بیٹے قاتل نکلے
پولیس نے لیسکو افسران کی مدد سے کئی گھروں کی نشاندہی کی جن کے گھروں میں بجلی کے اس بل کے میٹر ملتے جلتے تھے۔
زاہد سلیم بتاتے ہیں کہ ’ہم ان تمام گھروں میں گئے لیکن کسی بھی گھر سے کسی خاتون کے گم شدہ ہونے سے متعلق معلومات نہیں ملیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے بعد نشتر کالونی کے ایک گھر سے متعلق ہمیں پتا چلا کہ مارگریٹ نام کی ایک مسیحی خاتون گذشتہ ایک ماہ سے لاپتا ہیں۔‘
پولیس نے جب اس گھر کے افراد کے بارے میں جاننا شروع کیا تو صورتِ حال واضح ہونا شروع ہو گئی۔ ایس پی ایاز حسین کہتے ہیں کہ ’خاتون بیٹوں شفیق جیمز اور نبیل جیمز نے بتایا کہ ان کی والدہ ایک ماہ سے لاپتا ہیں۔‘
دونوں کا کہنا تھا کہ ’ہماری والدہ اس سے پہلے بھی گھر سے چلی جاتی تھیں اور خود ہی واپس آجاتی تھیں، اس لیے ہم نے پولیس کو اطلاع نہیں دی۔‘
پولیس نے بتایا کہ ’والدہ سے متعلق دونوں بھائیوں کے بیان سے ہمیں شک ہوا اور ہم نے انہیں شامل تفتیش کرلیا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایس پی نے بتایا کہ ’دونوں بھائیوں کے اس بیان سے ہمیں شک ہوا اور ہم نے انہیں شامل تفتیش کر لیا۔‘
مارگیٹ جن کی عمر 50 سال کے قریب بتائی جاتی ہے وہ لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزر بسر کرتی تھیں۔ پولیس کے مطابق دونوں بیٹوں نے ابتدائی تفتیش میں ہی یہ بات مان لی کہ انہوں نے اپنی والدہ کو قتل کیا۔
انچارج انویسٹیگیشن زاہد سلیم کے مطابق ’دونوں لڑکے جن کی عمریں 20 اور 25 سال کے درمیان تھیں نے اپنی والدہ کو یہ کہتے ہوئے سن لیا تھا کہ انہوں نے 50 ہزار روپے جمع کر رکھے ہیں۔‘
’اس کے بعد دونوں بیٹوں نے اپنی ماں سے رقم لینے کا فیصلہ کیا۔ پولیس کی تحویل کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ دونوں ہی آئس کا نشہ کرتے ہیں۔‘
زاہد سلیم کہتے ہیں کہ ’رقم دینے سے انکار پر دونوں بیٹوں نے اپنی والدہ کو مارنے کا فیصلہ کیا اور پھر دونوں بھائیوں نے گلا دبا کر انہیں قتل کر دیا۔‘
والدہ کو قتل کرنے کے بعد دونوں بھائی آدھی رات کو روہی نالے کی دوسری طرف کاہنہ کے ویران علاقے میں گئے اور وہاں لاش کو ٹھکانے لگایا۔
پولیس نے اس کیس سے متعلق تمام ریکارڈ حاصل کر لیا ہے جبکہ ایف آئی آر میں دونوں بھائیوں کو اس قتل میں نامزد کیا گیا ہے۔