Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیلاب، طیب بلوچ، نیپال اور شاہراہِ بھٹو، اجمل جامی کا کالم

نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندیاں محض ایک چنگاری ثابت ہوئی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
قومی ترجیحات کا تعین کرنا ہو تو تشہیر زدہ سیلابی امداد دیکھ لیں، اطلاع ملی کہ کچھ حلقوں میں مسلسل تشہیر پر ناگواری کا اظہار کیا گیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ بالآخر وزیر آباد میں کھانے کے ڈبے محض کھانے کی خوشبو کے ساتھ ہی مہیا کیے گئے۔
علیمہ خان مخاطب تھیں، اچانک انہیں انڈے دے مارے گئے، مسلسل دو دن انڈے زیرِبحث رہے۔ انڈہ بردار خواتین کون تھیں، کہاں سے آئیں، کہاں جا نکلیں، خاکسار تاوقت تحریر جواب ڈھونڈنے سے قاصر ہے۔ 
شکر خدا کا کہ رانا ثنا جیسے زیرک سیاستدانوں نے اگر مگر کے بغیر اس واقعے کی بھر پور مذمت کر ڈالی وگرنہ اس بے ہودگی کا دفاع کرنے والے جانثاران بھی سوشل میڈیا کے اگلے مورچوں پر تعینات ہوچکے تھے۔
گلے سڑے انڈے کی بدبو معاشرے کو ابھی تعفن میں مبتلا کیے ہوئے تھی کہ مقبول سیاسی جماعت کی خواتین سوشل میڈیا پر آمنے سامنے آگئیں۔ کچھ نے بیگم صاحبہ کے حق میں محاذ سنبھالا اور دیگر خان صاحب کی ہمشیرہ کے ساتھ وفاداری میں کھڑی ہوگئیں۔ اک دوجے پر رقیق حملے،
الزامات، وفاداریوں پر شکوک و شبہات اور نہ جانے کیسے کیسے پلاٹ گھڑ کر سیریز کو طوالت دی گئی۔ ابھی یہ بدمزگی باقی تھی کہ اچانک اڈیالہ کے باہر داہگل کے مقام پر علیمہ خان مخاطب ہی ہونے لگیں تھیں کہ صحافی طیب بلوچ کے ساتھ تشدد کا واقعہ پیش آ گیا۔
اللہ بھلا کرے چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا  کہ انہوں نے طیب سے ملاقات کی، معذرت کی اور آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آنے کی یقین دہانی کرائی۔ یہاں بھی فدائی تشدد کی حمایت میں ان گنت دلائل کا اسلحہ بارود لیے فرنٹ لائن پر چوکسی کے ساتھ پہرے پر ڈٹے ہوئے تھے۔ انڈے کے بعد طیب بلوچ پر تشدد کا واقعہ بھی دو چار دن مزید اہم اور سنگین ترین قومی معاملات سے توجہ ہٹائے رکھنے کے لیے کافی رہا۔
پھر کل ہی ذمہ دار ذرائع سے اطلاع ملی کہ علی امین گنڈاپور بھی اڈیالہ کے مکین کا اعتماد کھوتے جا رہے ہیں، قیدی نمبر آٹھ سو چار اور ان کی وفادار ہمشیرہ کو ادراک ہو رہا ہے کہ ان کا پیغام درست انداز میں وزیراعلیٰ تک نہیں پہنچتا یا وہ سن کر اس پر عمل نہیں کرتے۔ صوبے میں امن و امان کی صورتحال بارے ان کو دیے گئے پیغامات پر عمل نہ ہونے کے کارن کپتان برہم ہیں۔

داہگل کے مقام پر علیمہ خان مخاطب ہی ہونے لگیں تھیں کہ صحافی طیب بلوچ کے ساتھ تشدد کا واقعہ پیش آ گیا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

دستیاب قیادت اور وکلا رہنما اکثر جیل سے ملے پیغام  کی من و عن ترسیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کئی پیغامات کے ساتھ ہیر پھیر کی شکایت شدت سے محسوس کی گئی۔ ان رویّوں کو دیکھتے ہوئے اچکزئی صاحب پر تکیہ کرنے کا فیصلہ مصمّم طور پر کر لیا گیا۔ پارٹی رہنما سر جوڑے ان مسائل کا حل نکالنے میں تاحال ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ گنڈاپور عجب دقت میں ہیں، افغانستان جانے، جرگے کرنے اور صوبے  میں امن و امان بارے مخصوص احکامات بجا لانے میں بظاہر ناکام ہو رہے ہیں۔
معلوم ہوا کہ گنڈاپور کا پاسپورٹ ہی نو مئی کے بعد بلاک ہے۔ نئے کے لیے اپلائی کر چکے مگر ملا نہیں۔ پاسپورٹ بلاک کی کہانی اور وزیر داخلہ کے ہمراہ کسی لمحے چرسی کڑاھی تکے کی مجلس اگلے دو چار روز رونق لگائے رکھے گی۔
اُدھر نیپال میں جنریشن زی کے احتجاج کے بعد سرکار بالآخر گرا دی گئی۔ رانجو کافلی کھٹمندو سے بتا رہی تھیں کہ سوشل میڈیا پر پابندیاں محض ایک چنگاری ثابت ہوئی ہیں۔
رانجو رائزنگ سٹار نامی اخبار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاکستان سے ماسٹرز کی ڈگری کر چکیں۔ اردو زبان میں سہولت کے ساتھ گفتگو کر لیتی ہیں۔ بتا رہی تھیں کہ اصل مسئلہ حکمرانوں کی شاہانہ طرز زندگی سے اس کی نمائش سے اور بے پناہ کرپشن سے جنم لیا۔ جیسے ہی فوج نے اقتدار سنبھالا تو اب وہاں انقلابی شانت ہو چکے۔ فوجی حکام کی جانب آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب نیا آئین اور اصلاحات متعارف ہوں۔
 فوج کے آتے ہی نیپال کے انقلاب سے متاثر ہمارے ہاں کچھ دیوانے بھی شانت پڑ گئے۔ نیپال کہانی دو روز میں ختم ہوگئی۔ 
ان مدعوں پر لکھتے لکھتے اچانک خیال آیا کہ  پنجاب بھر میں تباہی کی ان گنت داستانیں چھوڑنے والا سیلاب اب جنوبی پنجاب اور سندھ کے درپے ہے۔

نیپال میں انقلابی اب فوجی حکام کی جانب آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب نیا آئین اور اصلاحات متعارف ہوں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعظم بتا رہے تھے کہ اگلے برس بیس سے تیس فیصد بارشیں زیادہ ہوں گی۔ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں دیگر کی نسبت کچھ زیادہ ہی رہے گا۔ گلیشئرز کا پگھلنا، عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہونا اور پھر ہمارے اپنے کرتوت، یعنی درخت اگانے کی بجائے ان  کو مسلسل کاٹتے رہنا، آبی گزرگاہوں میں تجاوزات اور پانی ذخیرہ کرنے کے ناکافی انتظامات کی وجہ سے ہم دیگر ممالک کی نسبت زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان بزنس فورم کے تخمینے کے مطابق سیلاب کی وجہ سے اس برس دھان ساٹھ فیصد کم ہوگی۔ کپاس 35 فیصد اور گنے کی فصل بھی تیس فیصد کم ہوگی۔ 42 لاکھ سے زائد افراد براہ راست اس سیلاب سے متاثر ہوچکے، لاکھوں مزید کا شمار ابھی باقی ہے۔
صرف ستلج کے کنارے قصور کے نواح میں 78 ہزار ایکڑ اراضی سیلاب کی نذر ہو چکی۔ مجموعی طور پر چوبیس سے پچیس اضلاع بپھرے ریلوں کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ درست تخمینہ لگانا شاید ابھی ممکن بھی نہ ہو۔ شاید ادراک ہوتے ہی اب سرکار نے ملک بھر میں زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان بھی اسی لیے کیا ہو۔ 

کراچی میں بارش ہوتے ہی ندی نالے بپھر جاتے ہیں اور شہر قائد کا سسٹم جواب دے جاتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی اگلے روز ملے، پروگرام میں گفتگو کے دوران بتا رہے تھے کہ سیلاب کی وجہ سے جعلی دودھ کی پیداوار بھی عروج پر جا پہنچی، صرف حالیہ دو ہفتوں میں ان کے ادارے نے تقریباً پونے پانچ لاکھ لٹر جعلی دودھ پکڑا اور ضائع کیا۔ صوبے کے دس اضلاع میں جعلی دودھ کا کاروبار ہو رہا تھا۔
مزید غور کیا تو معلوم ہوا کہ کراچی میں بارش ہوتے ہی ندی نالے بپھر جاتے ہیں اور شہر قائد کا سسٹم جواب دے جاتا ہے۔ سیاست کے نام پر ایک دوسرے پر الزام تو دھر لیا جاتا ہے لیکن تدارک کیسے ہوگا؟ حل نہیں مل پاتا۔
حالیہ بارشوں میں آخری سرخی یہ تھی کہ سیلاب 54 ارب سے بنی شاہراہ بھٹو بھی ساتھ بہا کر لے گیا۔
بہرحال! اگلی رونق کس مدعے پر لگے گی؟ میں بھی سوچوں تو بھی سوچ!والسلام!

شیئر: