Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیروز گاندھی: اندرا گاندھی سے شادی کرنے کے بعد جن کے کئی افیئرز سامنے آئے

فیروز گاندھی کو لڑکیوں سے بات کرنا پسند تھا، لیکن وہ اِن افیئرز میں زیادہ سنجیدہ نہیں تھے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو بذاتِ خود رکن پارلیمان رہا ہو، جس کی اہلیہ وزیراعظم رہی ہو، جس کا سُسر وزیراعظم رہا ہو، جس کا بیٹا وزیراعظم رہا ہو، جس کی دو بہوئیں، دو پوتے اور ایک پوتی رکن پارلیمان ہو اور پھر بھی وہ گمنام ہو؟
شاید آپ کا جواب نہیں میں ہوگا، لیکن اگر آپ اپنے ذہن پر بہت زور ڈالیں گے اور آپ کی انڈیا کی سیاست میں دلچسپی ہوگی تو آپ کے سامنے وہ نام فیروز گاندھی کے طور پر اُبھرے گا۔
انڈیا کی سیاست میں فیروز گاندھی ایک ایسی شخصیت رہے ہیں جنہیں اُن کی صلاحیتوں کی وجہ سے کم بلکہ انڈیا کی پہلی اور اب تک کی واحد خاتون وزیراعظم اندرا گاندھی کے ساتھ ان کی شادی اور ان کے رشتے کی تلخی کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔
ایک خاص حلقے کو جب اندرا گاندھی کو تنقید کا نشانہ بنانا ہوتا ہے تو وہ اُن کے شوہر فیروز گاندھی کو مسلمان کے طور پر پیش کرتا ہے۔
آج ہم انہیں اس لیے یاد کر رہے ہیں کہ آج سے 113 سال قبل 12 ستمبر 1912 میں وہ بمبئی پریذیڈنسی میں ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔
اُن کا پورا نام فیروز جہانگیر غاندی (بعد میں گاندھی ہو گئے) تھا اور وہ عہدوں کی چمک سے زیادہ قلم کی طاقت اور پارلیمان میں سوال پوچھنے کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
فیروز گاندھی نے ایک ایسے زمانے میں جوانی گزاری جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ 1942 میں ملک کے سب سے مشہور سیاسی گھرانے میں اُن کی شادی ہوئی اور اس شادی کی سب سے زیادہ مخالفت بھی ہوئی۔
یہ محبت کی ایک شادی تھی۔ یہاں تک کہ دُلہن کے والد جواہر لعل نہرو اور دُلہے کی والدہ بھی اس شادی کے خلاف تھے اور جب ان کی منگنی ہوئی تو نہرو اس تقریب میں موجود نہیں تھے۔
جواہر لعل نہرو سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے بھی اخبار کے ذریعے ہی اس کا علم ہوا ہے۔
سوانح عمری ’فیروز: دی فارگوٹن گاندھی‘ کے مصنف برٹِل فاک کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں فیروز گاندھی کو انتہائی غیر منصفانہ طریقے سے تاریخ کے حاشیے پر دھکیل دیا گیا۔

فیروز گاندھی نے 1933 میں اندرا گاندھی کو شادی کی پیش کش کی جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ان کی سوانح عمری کو لکھنے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ فیروز گاندھی کی سوانح کوئی اور نہیں لکھ رہا تھا۔
برٹل فاک لکھتے ہیں کہ کس طرح فیروز گاندھی پہلی بار اندرا گاندھی کے دادا موتی لال نہرو کے گھر آنند بھون پہنچے تھے۔
وہاں اُن کا داخلہ اندرا گاندھی کی والدہ کملا نہرو کی وجہ سے ہوا تھا۔ واقعہ یوں ہے کہ کملا نہرو الہ آباد کے گورنمنٹ کالج میں ایک دھرنے پر بیٹھی تھیں۔ 
برٹل فاک لکھتے ہیں کہ ’جب کملا نہرو حکومت برطانیہ کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں تو فیروز گاندھی کالج کی دیوار پر بیٹھ کر وہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ شدید گرم دن تھا۔ اچانک کملا نہرو بے ہوش ہو گئیں۔‘
فیروز دیوار سے کُود کر کملا کی طرف لپکے، تمام طلبہ نے کملا نہرو کو اُٹھایا اور ایک درخت کے نیچے لے گئے۔ اُن کے سر پر گیلا کپڑا ڈالا گیا، چہرے پر پانی کا چِھڑکاؤ کیا گیا، اسی دوران کوئی لپک کر پنکھا لے آیا اور فیروز نے اُن کے چہرے پر پنکھا جھلنا شروع کر دیا۔
جب کملا کو ہوش آیا تو فیروز اور اُن کے ساتھی کملا کو آنند بھون لے آئے اور یہ پہلا موقع تھا جب فیروز آنند بھون پہنچے۔‘
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ بمبئی میں پیدا ہونے والے فیروز الہ آباد کیسے پہنچے؟ دراصل فیروز اپنے والد کی وفات کے بعد والدہ کے ساتھ اپنی خالہ کے ہاں رہنے کے لیے الہ آباد (اب پریاگ راج) آگئے تھے اور اسی لیے اُن کی تعلیم و تربیت الہ آباد میں ہی ہوئی۔

اندرا گاندھی کے والد جواہر لعل نہرو اُن کی منگنی تقریب میں شریک نہیں ہوئے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پھر انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کا اصل نام غاندی تھا لیکن جدوجہدِ آزادی میں شرکت کرنے اور مہاتما گاندھی سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنا نام فیروز جہانگیر غاندی کی جگہ ’گاندھی‘ کر لیا تھا۔
فیروز گاندھی کملا نہرو کے بہت قریب رہنے لگے اور انہوں نے 1933 میں ہی اندرا گاندھی سے شادی کی پیش کش کردی تھی جسے نہ صرف اندرا گاندھی بلکہ کملا نہرو نے بھی مسترد کر دیا۔
تاہم کملا نہرو کی بیماری کے دوران وہ اُن کے قریب رہے اور جب وہ علاج کے لیے بیرونِ ملک سفر اور بسترِ مرگ پر تھیں تو بھی فیروز گاندھی اُن کے ساتھ ہی تھے۔
سنہ 1936 میں کملا نہرو کی موت کے بعد فیروز گاندھی اور اندرا گاندھی کے درمیان قُربت بڑھی اور دونوں نے 1942 میں شادی کر لی، لیکن ایک ہی سال بعد دونوں الگ الگ رہنے لگے۔
اندرا گاندھی نے اپنے والد کے ساتھ دلی میں رہنا پسند کیا جبکہ فیروز لکھنؤ میں رہتے تھے۔
کانگریس پر گہری نظر رکھنے والے مصنف اور صحافی رشید قدوائی بتاتے ہیں کہ ’دونوں کے درمیان کبھی بھی مثالی میاں بیوی کا رشتہ قائم نہ ہو سکا۔‘
’فیروز گاندھی بہت سمارٹ تھے۔ بہت اچھا بولتے تھے۔ اچھے مقرر تھے۔ اُن میں مزاح کی زبردست حِس تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین اُن کی طرف کھنچی چلی آتی تھیں۔‘

فیروز گاندھی ذمہ دار قانون ساز کی حیثیت سے پارلیمانی فورم پر تُند و تیز سوال رکھتے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نیشنل ہیرالڈ میں کام کرنے والی نہرو خاندان کی ایک لڑکی کے ساتھ اُن کے تعلقات کی افواہیں بھی اُڑیں اور اِن سب نے دونوں کے رشتوں کو تلخ ہی کیا۔‘
فیروز گاندھی کی مسلم گھرانے کی ایک لڑکی کے ساتھ افیئر کی بات بھی سامنے آئی جس پر نہرو بہت خفا ہوئے۔ انہوں نے اپنے ایک وزیر اور قریبی دوست رفیع احمد قدوائی کو لکھنؤ بھیجا اور معاملہ رفع دفع کروایا۔
بہرحال برٹل فاک بتاتے ہیں کہ اُن کے دوستوں کے مطابق فیروز گاندھی بہت منچلے اور شوخ طبیعت انسان تھے۔ وہ اِن افیئرز میں زیادہ سنجیدہ نہیں تھے۔ انہیں لڑکیوں سے بات کرنا پسند تھا۔
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فیروز گاندھی نہرو کی کابینہ کی وزیر تارکیشوری سنہا کے بھی بہت قریب تھے۔بہرحال فیروز کی اپنی شناخت پارلیمان کی نشستوں اور اخبارات کے صفحات پر اپنے خیالات کے اظہار سے ہوئی۔
بطور صحافی اُن کی تربیت نے ان میں شفافیت اور جواب طلبی کی حِس پیدا کی۔ جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو ان کا مقصد ذاتی مفاد نہیں بلکہ حکومت کے محکموں کی جانچ پڑتال تھا۔ طاقت کے سامنے سوال اُٹھانا اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنا اُن کی شہرت کی وجہ بن گیا۔

آج راہُل گاندھی کو حکومت کے سامنے ڈٹا دیکھ کر شاید ہی کسی کو اُن کے دادا فیروز گاندھی کی یاد آتی ہو (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 1950 کی دہائی میں جب نیا انڈیا اپنے قدموں پر کھڑا ہو رہا تھا، فیروز پارلیمان کے ان نمایاں ارکان میں شامل تھے جو بے باکی سے سوال کرتے اور حقائق سامنے لاتے تھے اور نہرو بھی اُن کی صلاحیت کے معترف تھے۔
فیروز کوئی کام دکھاوے کے لیے نہیں کرتے تھے بلکہ وہ حقائق کو جمع کرنے والے صحافی اور ذمہ دار قانون ساز کا امتزاج تھے۔ پارلیمانی فورم پر وہ تُند و تیز سوال رکھتے۔
فیروز گاندھی کی زندگی بہت مختصر رہی۔ 1960 میں محض 47 سال کی عمر میں وہ چل بسے مگر اُن کی میراث زندہ رہی۔ اُن کے بیٹے راجیو گاندھی اُن کی اہلیہ کی موت کے بعد وزیراعظم بنے۔
فیروز گاندھی نے ثابت کیا کہ جمہوریت کو ایسے نمائندے چاہییں جو عنانِ حکومت کی نگرانی کریں اور بدعنوانی کو بے نقاب کریں۔ 
ان کی جدوجہد نے پارلیمانی احتساب کی روایت کو مضبوط کیا اور عوامی زندگی میں شفافیت کی اقدار کو بڑھایا۔
آج حزبِ اختلاف کے رہنما راہُل گاندھی کو حکومت کے سامنے ڈٹا دیکھ کر شاید ہی کسی کو اُن کے دادا فیروز گاندھی کی یاد آتی ہو۔

شیئر: