سلمان العمرانی نے جن کا تعلق تبوک ریجن کی حقل کمشنری سے ہے نے اپنی نجی مجلس کو اس انداز سے تبدیل کر دیا ہے کہ یہاں اب گئے دنوں کی جھلک ملتی ہے، ماضی کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے اور دل میں بسی ہوئی یادیں بھی تازہ ہوجاتی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سعودی شہری کا نجی میوزیم، جہاں 10 ہزار قدیم اشیا موجود ہیں
Node ID: 885341 -
عسیر میں سعودی ماہرِ ماحولیات نے ’ماحول دوست میوزیم‘ بنا لیا
Node ID: 892192
سعودی پریس ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق العمرانی کا جذبہ اور اس کام کے لیے انھوں نے خود کو جس طرح وقف کیا ہے اس کے نتیجے میں ان کے بیٹھنے کی جگہ اب ایک وسیع وراثت کے بہترین مجموعے میں بدل چکی ہے جس میں قرآنِ پاک کےنسخے، پرانے اخبار، ٹیلی وژن، ٹیلی فون، سلائی مشینیں، کیسٹ ٹیپس، روایتی فرنیچر، کپڑے اور انسانی ہاتھوں سے بنی دیگر مصنوعات شامل ہیں۔
انتہائی احتیاط سے منتخب کردہ یہ اشیا، العمرانی کی ان کوششوں کی عکاس ہیں جن کے ذریعے وہ ثقافتی ورثے کو محفوظ بنا رہے ہیں اور دیکھنے والوں کو کمیونٹی کی تاریخ سے حاصل کردہ ایک مستند یادگار کے بارے میں جاننے کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔

العمرانی کا کہنا ہے کہ یہ قومی میراث سے ان کا پیار ہے جس نے ان میں اس خزانے کو جمع کرنے کا جذبہ پیدا کیا ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو اس میراث سے روشناس کرائیں اور انھیں بتائیں کہ ان کے آباؤ اجداد نے کس طرح زندگیاں گزاریں اور مملکت کی ترقی کے سفر میں کس طرح ساتھ ساتھ چلتے رہے۔
العمرانی نے زور دے کر کہا کہ وہ اس طرح کی قدیم مگر قیمتی اشیا کو جمع کرتے رہیں گے اور انھیں نمائش پر رکھتے رہیں گے۔

وہ ثقافتی اور تاریخی حیثیت کی حامل ان مصنوعات اور لوک شاعری اور گیتوں کو بھی دستاویزی شکل میں بدلتے ہیں تاکہ آئندہ نسلوں میں اپنے ماضی پر تفاخر کا جذبہ ختم نہ ہونے پائے اور مملکت کی ثقافتی شناخت مضبوط رہے۔