Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطین مشن لندن میں ریاست کو تسلیم کرنے کا جشن، پرچم کشائی کی تقریب

برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم  کرنے پر لندن میں فلسطینی مشن نے پیر کے روز ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا۔
یہ تقریب اُس علامتی اور سفارتی پیش رفت کے خیر مقدم کے لیے منائی گئی جب برطانیہ نے اتوار کے روز آسٹریلیا، کینیڈا اور پرتگال کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاسوں سے قبل فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا۔
عرب نیوز کے مطابق پیر کے روز فلسطینیوں نے برطانوی حکومت کی جانب سے فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے جانے کے اعلان کو ایک پرچم کشائی کی تقریب کے ذریعے منایا، جس میں برطانیہ کے اعلیٰ حکام، اراکین پارلیمنٹ، سفراء اور فلسطینی کمیونٹی کے اراکین نے شرکت کی۔
یہ باضابطہ تقریب لندن کے علاقے ہیمرسمتھ میں واقع برطانیہ میں فلسطینی مشن کے باہر منعقد ہوئی، جس میں فلسطینی سفیر حسام زملط نے خطاب کیا۔ جلد ہی یہ مشن ایک مکمل سفارت خانے میں تبدیل ہونے جا رہا ہے۔
حسام زملط نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا  کہ ’جس دارالحکومت  سے اعلانِ بالفور جاری ہوا تھا، ایک صدی سے زائد کے مسلسل انکار، بے دخلی اور مٹائے جانے کے بعد، بالآخر برطانوی حکومت نے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کر کے ایک دیرینہ قدم اٹھایا ہے۔‘
فلسطین، جو تقریباً 30 سال تک ایک برطانوی نوآبادی رہا، 1950 میں اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے باوجود، کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ اسرائیل وہ ریاست ہے جس کا وعدہ 1917 کے اعلامیہ بالفور میں کیا گیا تھا، جس میں فلسطین میں یہودی عوام کے لیے ایک ’قومی وطن‘ کے قیام کی بات کی گئی تھی۔
حسام زملط نے کہا کہ ’یہ لمحہ سچائی کا ایک جرات مندانہ اظہار ہے، یہ نسل کشی کو آخری فیصلہ ماننے سے انکار ہے، اور یہ تسلیم کرنے سے انکار ہے کہ قبضہ ہمیشہ کے لیے ہے۔‘
حسام زملط نے کہا کہ برطانیہ کی جانب سے تسلیم کیے جانے کا یہ اقدام فلسطینی عوام، جو غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں 55 لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہیں، کے لیے ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب وہ ناقابلِ تصور درد اور مصیبت سے گزر رہے ہیں۔
محمود درویش کی مشہور نظم کا حوالہ
جذبے سے بھرپور تقریر میں فلسطین کے قومی شاعر محمود درویش کی مشہور نظم ’اس سرزمین پر جینے کے اسباب موجود ہیں‘ کا حوالہ دیا گیا۔
اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر جان سونی  نے اس تقریب میں شرکت کی، جبکہ سابق لیبر رہنما جیریمی کوربن بھی موجود تھے۔

 تقریر میں فلسطین کے قومی شاعر محمود درویش کی مشہور نظم ’اس سرزمین پر جینے کے اسباب موجود ہیں‘ کا حوالہ دیا گیا۔  (فوٹو: عرب نیوز)

جان سونی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’یہ فلسطین کے حقِ خودارادیت کو یقینی بنانے اور دو ریاستی حل کے ذریعے امن کی طرف ایک فیصلہ کن قدم ہے۔‘
جیریمی کوربن، جو اب ایک آزاد رکنِ پارلیمنٹ ہیں، نے ان تمام افراد کو مبارکباد دی جنہوں نے فلسطین کو تسلیم کرانے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ انہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کو فلسطینی عوام کا ناقابلِ انکار حق قرار دیا۔
خیال رہے برطانیہ، آسٹریلیا، پرتگال اور کینیڈا نے اتوار کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا، جسے مغربی خارجہ پالیسی میں دہائیوں بعد ایک بہت بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پرتگال نے بھی اتوار کو ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا۔
اتوار کو برطانوی وزیرِاعظم کیئر سٹارمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا تھا کہ ’آج، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید اور دو ریاستی حل کو زندہ کرنے کے لیے، برطانیہ نے باقاعدہ طور پر ریاستِ فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے۔‘
برطانیہ اور کینیڈا جی سیون میں شامل وہ پہلے ممالک بن گئے ہیں جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے، جبکہ فرانس اور دیگر ممالک سے توقع ہے کہ وہ پیر کو نیو یارک میں شروع ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ان کی پیروی کریں گے۔

کینیڈین نے وزیرِاعظم مارک کارنی نے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک دیگر بڑے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل پر غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔
انہوں نے ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ ’کینیڈا ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے اور ریاستِ فلسطین اور ریاستِ اسرائیل، دونوں کے لیے پُرامن مستقبل کی تعمیر میں شراکت داری کی پیشکش کرتا ہے۔
آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانیزے نے بھی اتوار کو اعلان کیا تھا کہ آسٹریلیا نے ’آزاد اور خودمختار ریاستِ فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔

شیئر: