Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں ’دستکاری کا سال‘ ثقافتی ورثے کو کیسے محفوظ بنا رہا ہے؟

نجد کی پیچیدہ سدُو بنائی سے لے کر الباحہ کے پہاڑی علاقوں میں ملنے والے بید سے چیزیں بنانے کا ہنر ہو یا حجازی فنِ تعمیر میں لکڑی کا نازک کام۔ یہ سب سعودی عرب میں ’دستکاری کے سال‘ کو منانے اور مملکت کے ثقافتی ورثے کو تعاون فراہم کرنے اور اسے محفوظ کرنے کی قومی کوشش ہے۔
وزارتِ ثقافت کے ہیرِٹج کمیشن میں دستکاری کے شعبے کی سربراہ اور ’دستکاری کے سال‘ کی جنرل مینیجر ڈاکٹر دالیا یحیٰی نے عرب نیوز کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں یہ بات کہی۔
ڈاکٹر دالیا یحیٰی کہتی ہیں کہ ’دستکاری کا سال‘ کاریگروں اور فنکاروں، ہاتھ سے کیے گئے کاموں اور مملکت کی اس زرخیزی پر روشنی ڈالتا ہے جس کے لیے سعودی عرب مشہور ہے۔
ان سب کا محرک وژن 2030 ہے جس کے تحت دستکاری کا سال ایک سٹریٹیجک انیشیٹِیو کی حیثیت رکھتا ہے تاکہ سعودی عرب کے مالا مال ثقافتی ورثے اور ماضی کے درخشاں وقتوں سے چلتی آنے والی کاریگری کو باعثِ فخر سمجھا جائے اور اسے محفوظ کیا جائے۔
میں سمجھتی ہوں کہ اس سال دستکاری نے دو مختلف ایریاز پر واضح اثر ڈالا ہے۔ پہلا اثر روایتی دستکاری کا تحفظ اور شہریوں کی شناخت اور ریجن سے تعلق کے احساس کو بڑھانا ہے: خاص طور پر اس لیے بھی کہ مملکت، اپنے روایتی ہنر کی وجہ سے خاص شہرت رکھتی ہے۔

دستکاری کا سال، ثقافتی برسوں کے ایک وسیع سلسلے کا حصہ ہے (فوٹو: ایس پی اے)

دوسرا ایریا جہاں واضح فرق نظر آتا ہے وہ یہ کہ اس برس کا مقصد یہ ہے کہ کاریگروں کی حیثیت اور مرتبے میں اضافہ ہو، انھیں تربیت ملے اور ان کی پروڈکٹس کو مارکیٹ تک پہنچایا جائے اور بطور کاروباری افراد، ان پر خاص روشنی ڈالی جائے۔ اس کے علاوہ اداروں اور ایسوسی ایشنز کو بھی نمایاں کیا جائے جو دستکاری کے کام سے وابستہ ہیں۔
دستکاری کا سال، ثقافتی برسوں کے ایک وسیع سلسلے کا حصہ ہے جن میں ماضی میں عربی خطاطی اور شاعری، سعودی کافی اور اونٹوں پر زیادہ توجہ گئی۔
اس سال کو منانے کے کئی مقاصد ہیں جن میں ثقافتی شناخت میں اضافہ، مقامی کاریگروں کو بااختیار بنانا، سعودی ہنر کو دنیا بھر میں فروغ دینا اور کاریگروں اور مقامی اور بین الاقومی برادری کے درمیان رابطے پیدا کرنا ہے۔

ڈاکٹر دالیا یحیٰی کا کہنا ہے اس کا مقصد سعودی ہنر کو دنیا بھر میں فروغ دینا ہے ( فوٹو: عرب نیوز)

وژن 2030 کے تحت ہیرٹِج کمیشن مملکت  کے ہر ریجن سے دستکاری کو محفوظ بنانے کے لیے بھرپور کام کر رہا ہے اور کاریگروں میں کاروباری جذبے کو بھی فروغ دے رہا ہے تاکہ وہ پائیدار مستقبل کی تعمیر کر سکیں۔
ڈاکٹر دالیا یحیٰی کے مطابق ’ہیرٹِج اتھارٹی نے کئی انشیٹِیوز پر کام کیا ہے تاکہ ہنرمندوں کو بااختیار بنایا جا سکے۔ اس سلے میں اہم ترین بات ہنر کا لائسنس ہے۔
ان کے آن لائن پلیٹ فارم ابداع سے کمیشن، ان دستکاروں اور دستکاری کے کاروبار کو لائسنس جاری کرتا ہے۔ سنہ 2025 تک  لائسنس یافتہ دستکاروں کی تعداد 4855 ہے۔

 2025 تک مملکت میں لائسنس یافتہ دستکاروں کی تعداد 4855 ہے۔ (فوٹو: ایس پی اے)

آرٹیزنز ہاؤس‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ اس سلسلے میں آگاہی بڑھانے اور روایتی ہنر سے بننے والی پروڈکٹس کی ترقی اور ان کے لیے ضروری تربیت کا کام کر رہا ہے۔ دستکاری کو محفوظ بنانے والی ایک سکیم بھی جاری ہے جس میں سعودی عرب کا ’انٹرنیشنل ہینڈی کرافٹس ویک‘ شامل ہے۔
اس سکیم کا مقصد دیگر ممالک کے ساتھ ثقافتی تبادلے کے ذریعے سعودی ہیرٹج کو نمایاں کرنا شامل ہے۔ اس سلسلے میں 25 ممالک نے ابتدائی ایڈیشنز میں حصہ لیا ہے جبکہ تیسرا ایڈیشن نومبر میں شروع ہوگا جس میں دستکاری کو مارکیٹ میں لانے پر توجہ مرکوز ہوگی۔
اس ایڈیشن میں مقامی اور بین الاقوامی تقریباً پانچ سو نمائش کار شامل ہوں گے۔
ڈاکٹر یحیٰی نے کہا کہ ’اگر ہم ینبع یا القطیف یا دیگر علاقوں کے ساحلی ہنر کو دیکھیں تو ان میں پانی کی جھلک پائی جاتی ہے جیسے مچھلی پکڑنے کے جال کا ہنر، لکڑی کے جہازوں کو بنانے والے یا وہ جیولری یا نگینے جو شیلز سے بنتے ہیں یا پھر موتی اور اسی قسم کے دیگر ہنر ساحلی علاقوں میں نظر آتے ہیں۔

’آرٹیزنز ہاؤس‘ کے نام سے پروجیکٹ آگاہی بڑھانے کےلیے کام کر رہا ہے (فوٹو: ایس پی اے)

عسیر جیسے پہاڑی علاقوں میں ہمیں جو ہنر دکھائی دیتے ہیں ان میں لوکیشن اہم ہے مثلاً پتھروں سے بنے برتن، لکڑی کے ڈبے، اون یا سرد موسم سے بچنے والی چیزیں شامل ہیں۔
حدودِ الشمالیہ میں الندافعہ کا روایتی ہنر یا اون اور کاٹن کی پروسیسنگ، خام مواد کو بستر یا رضائی وغیرہ میں بدلنے جیسی دستکاری ملتی ہے۔
جنوب میں ایک مختلف قسم کا ہنر دیکھنے کو ملتا ہے جیسے نجران میں پرتکلف اور رسمی خنجر بنائے جاتے ہیں جو نسل در نسل بنتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ خنجر ثقافتی علامتیں ہیں جس میں ہر خنجر کو الگ طریقے سے سجایا جاتا ہے۔
دالیا یحیٰی نے کہا کہ ہیرٹِج کمیشن کے کام سے مقامی معیشت اور دستکاروں کے روزگار میں اضافہ ہوا ہے۔

سعودی عرب میں 14 سے زیادہ ’کرافٹ ہاؤس‘  موجود ہیں ( فوٹو: ایس پی اے)

انھوں نے بتایا کہ ’سب سے بڑا چیلنج مارکیٹ کی موجودہ ضروریات اور مستند دستکاری کی تلاش اور اسے محفوظ کرنے کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے ۔تاہم کمیشن میں ہم نے کئی انیشی ٹِیوز شروع کیے ہیں تاکہ اس پہلو کو مضبوط اور اس ہنر کے مستند ہونے کو تحفظ دیا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ ’کمیشن کے ’کرافٹ ہاؤس‘ کا انیشی ٹِیو ہنرمندوں کو بااختیار بناتا ہے کہ وہ نئے ڈیزائن تخلیق کرتے ہوئے روایتی ورثے اور جدید معیار کا ملاپ کریں۔‘
ہمارے پاس مملکت میں 14 سے زیادہ ’کرافٹ ہاؤس‘ ہیں اور ہر ایک ہاؤس اپنے ریجن میں پائے جانے والے ہنر پر فوکس کرتا ہے۔
ان کے مطابق ’اس تمام کاریگری کو زندہ کرنے سے روایتی پروڈکٹس کی مارکیٹ میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی ایک خاص وجہ مملکت کے باہر سے آنے والے افراد ہیں۔ سعودی عرب آنے والا ہر شخص کوئی نہ کوئی ایسی چیز چاہتا ہے جو اس جگہ سے جُڑی ہوئی ہو۔‘

 

شیئر: