حکام کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی میں سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی کے دوران کالعدم تنظیم کے دو اہم کن مارے گئے جبکہ ایک ملزم نے گرفتاری دے دی۔
ہلاک ہونےوالوں میں ایک کی شناخت بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے سابق چیئرمین اور وکیل زبیر احمد بلوچ کے نام سے ہوئی ہے۔
زبیر بلوچ کی ہلاکت کی خبر نے ان کے کئی سابق ساتھیوں اور جاننے والوں کو حیران کردیا جو انہیں ایک وکیل اور ماضی کے ایک سرگرم طالب علم رہنما کے طور پر پہچانتے تھے۔
مزید پڑھیں
حکام کے مطابق یہ کارروائی کوئٹہ سے تقریباً 400 کلومیٹر دور چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین کے علاقے کلی یار محمد میں بدھ کو کی گئی۔ مقامی افراد کے مطابق صبح چار بجے سے شروع ہونے والی فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ تین گھنٹے سے زائد جاری رہا ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران اس واقعے پر بریفنگ دی اور بتایا کہ یہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن تھا جس میں ایڈووکیٹ زبیر احمد اور ان کا ایک ساتھی مارا گیا جبکہ ان کے تیسرے ساتھی جہانزیب نے سکیورٹی فورسز کو گرفتاری دی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ زبیر سکیورٹی فورسز پر حملوں، چینی انجینیئرز کی نگرانی، کالعدم تنظیم کے لیے بھرتیوں اور سہولت کاری میں ملوث تھا۔ وہ کالعدم تنظیم کے انٹیلی جنس ونگ ’زراب‘ کے ساتھ بھی کام کرتا تھا۔ وزیراعلیٰ کے مطابق ملزمان چاغی میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
وزیراعلیٰ میر سرفراز احمد بگٹی نے کہا کہ 8 مئی کو چاغی میں پاکستان ایئر فورس کے دو اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ کے بعد کچھ ملزمان گرفتار ہوئے جنہوں نے دوران تفتیش زبیر بلوچ کا نام لیا جس کے بعد اس کی نگرانی شروع کی گئی۔
وزیر اعلیٰ نے مزید بتایا کہ زبیر بلوچ کی گذشتہ دو ماہ سے تین ماہ سے مسلسل تکنیکی اور ہیومن انٹیلی جنس کے ذریعے نگرانی کی جارہی تھی۔ بدھ کی علی الصبح سکیورٹی فورسز اس کے گھر تک پہنچیں اور اس کے بعد سپیکر پر اعلان کرکے انہیں سرنڈر کرنے کے لیے کہا لیکن اعلان سنتے ہی فوراً وہاں سے فائرنگ شروع ہوئی جس سے ایف سی کا ایک جوان شدید زخمی ہوا۔ اس کے بعد جوابی کارروائی کی گئی۔

وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس میں کارروائی کے دوران گرفتار شخص کا ویڈیو بیان بھی دکھایا جس میں اس نے اپنا تعارف کوئٹہ کے علاقے سمنگلی روڈ کے رہائشی جہانزیب عرف علی جان کے نام سے کرایا۔
گرفتار شخص نے اپنے اعترافی ویڈیو بیان میں کہا کہ وہ اور نثار احمد، زبیر بلوچ کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ زبیر بلوچ دو سال سے تنظیم سے وابستہ تھا اور اپنے اڈے پر تنظیم کے ساتھیوں کو پناہ دیتا اور تخریبی منصوبہ بندی کرتا تھا۔
جہانزیب کا کہنا تھا کہ 23 اور 24 ستمبر کی درمیانی شب سکیورٹی فورسز نے زبیر کے گھر کا محاصرہ کیا تو زبیر اور نثار نے فورسز پر فائرنگ کی۔ سکیورٹی فورسز نے جوابی فائرنگ کی جس سے نثار مارا گیا۔ گھیرا تنگ ہونے پر زبیر نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو گولی مار لی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی کا کہنا ہے کہ ایسا سخت گیر دہشت گرد کرتے ہیں جو زخمی ہونے پر خود کو گولی مارتے ہیں جبکہ مرنے سے پہلے وہ اپنے موبائل کو بھی فائرنگ کرکے تباہ کردیتے تھے تاکہ اس کا فرانزک نہ ہوسکے۔
لگ بھگ 35 سال کی عمر کے زبیر بلوچ کا تعلق کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے کلی شیخان سے تھا اور وہ علیزئی دہوار قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ و ہ شادی شدہ اور چار سالہ بیٹے کے باپ تھا۔ ان کے بھائی کوئٹہ کے معروف ڈینٹسٹ ہیں اور ماضی میں سرکاری ٹی وی پر پروگرام بھی کرتے تھے۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق زبیر کو پیر اور پسلیوں کے علاوہ ایک گولی تھوڑی پر بھی لگی تھی۔ ہلاک ہونے والے دوسرے شخص کی شناخت نثار احمد مینگل کے نام سے ہوئی جس کا تعلق نوشکی کے علاقے بدل کاریز سے بتایا جاتا ہے۔
زبیر بلوچ کا شمار ماضی کے سرگرم طلبہ رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ وہ 2020 اور 2021 کے دوروران بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار ) کے چیئرمین رہے اور اس سے قبل تنظیم کے مرکزی آرگنائزر بھی ر ہ چکے تھے۔ انہوں نے لاء کالج کوئٹہ سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کی تھی۔ کچھ عرصہ تک کوئٹہ میں پریکٹس کی اس کے بعد دالبندین میں چیمبر بناکر وکالت کررہے تھے۔

دالبندین پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق زبیر احمد دالبندین کی عدالتوں میں باقاعدگی سے پیش ہوتے تھے۔ وہ دالبندین شہر کے مرکزی علاقے میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔
خیال رہے کہ بی ایس او پجار بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کی ذیلی طلبہ تنظیم ہے جو پارلیمانی اور پرامن سیاست پر یقین رکھتی ہے اسی لیے زبیر بلوچ کی عسکریت پسندتنظیم سے وابستگی کی خبر نے ان کے سابق ساتھیوں سمیت کئی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا۔
بی ایس او پجار کے ایک سابق وائس چیئرمین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عام طور پر بی ایس او رہنما تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی مرکزی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں مگر زبیر بلوچ نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔
دالبندین منتقل ہونے کے بعد ان سے رابطے بھی کم ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ بات سچ ہے کہ وہ مسلح تنظیم سے وابستہ تھا تو ہمارے لیے بہت حیران کن ہے۔ ’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ زبیر بلوچ بندوق اٹھائے گا۔‘
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی کا دعویٰ ہے کہ زبیر احمد وکیل کے بھیس میں دراصل کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ کا ہارڈ کور دہشت گرد تھا جس کا تنظیمی اور کوڈ نیم شاہ جی تھا۔ ان کے بقول ایران کی سرحد سے ملحقہ چاغی کا شمار کئی دہائیوں سے بلوچستان کے پرامن علاقوں میں ہوتا تھا۔ زبیر بلوچ دراصل یہاں کالعدم تنظیم کے لیے بھرتیوں اور سہولت کاری کے لیے آیا ہوا تھا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے پیشے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے کیونکہ پروفیسر، وکیل اور دیگر شعبوں کے لوگ بھی دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ انہوں نے اگست میں کوئٹہ سے گرفتار ہونے والے آئی ٹی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ اگست میں یوم آزادی کی تقریبات پر بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔
نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور بی ایس او کے سابق چیئرمین اسلم بلوچ کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی اور اس کی طلبہ تنظیم پارلیمانی اور پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ زبیر بلوچ ایک پڑھے لکھے اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ شروع سے ہی بی ایس او سے وابستہ رہے اس لیے طلبہ سیاست میں بہت فعال تھے۔

ان کے بقول زبیر بلوچ طلبہ مسائل کے علاوہ انسانی حقوق اور لاپتہ افراد کے حوالے سے بھی آواز بلند کرتے تھے۔ اس دوران کئی بار گرفتار بھی ہوئے۔ ایک بار بولان میڈیکل یونیورسٹی ایکٹ کے خلاف احتجاج میں ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ بھی گرفتار ہوئے۔
اسلم بلوچ کا کہنا تھا کہ ہمیں اب تک اصل حقیقت معلوم نہیں لیکن اگر یہ بات درست ہے کہ زبیر بلوچ عسکریت پسند سرگرمیوں میں ملوث تھے تو یہ ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ پرامن سیاسی تنظیموں سے وابستہ نوجوان عسکریت پسندی کی طرف کیوں مائل ہورہے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پرامن اور پارلیمانی سیاسی جدوجہد کے لیے راستے محدود کر دیے گئے ہیں اس لیے نوجوان پارلیمانی اور پرامن سیاست سے مایوس اور ریاست سے دور ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں مسلح تحریک کو احساس محرومی اور ترقی نہ ہونے سے جوڑنا غلط ہے۔ غیر ملکی ایجنسیوں کی ایماء پر پاکستان توڑنے کی سازش ہورہی ہے اور قوم پرستی کی بنیاد پر ذہن سازی کرکے نوجوانوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی تعلیم یافتہ یا پیشہ ور فرد نے بلوچ مسلح تنظیم کا رخ کیا ہو۔ اس سے قبل جولائی میں مستونگ سے تعلق رکھنے والے سفیان کرد عرف شاشان سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مارے گئے۔ وہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر تھے اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں سیاسیات کے طالب علم تھے لیکن تعلیم ادھوری چھوڑ کر مسلح تنظیم میں شامل ہوگئے۔
