کراچی میں اپنے گھر کا خواب عام آدمی کے لیے روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت نے ’میرا گھر میرا آشیانہ‘ سکیم کے تحت کم آمدنی والے طبقے کو سہولت دینے کی کوشش کی ہے۔
تاہم زمین اور تعمیراتی لاگت آسمان کو چُھو رہی ہے، تو ایسے میں قرض کی محدود رقم سے اپنا گھر بنانے کا خواب شرمندۂ تعمیر کرنا ممکن نہیں۔
چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 120 گز کے گھر کی قیمت عموماً ایک کروڑ روپے سے تجاوز کر جاتی ہے، تو 30 یا 35 لاکھ روپے کا قرض عام آدمی کی کس حد تک مدد کر سکتا ہے؟
مزید پڑھیں
-
تارکین وطن کے لیے متوقع ’روشن اپنا گھر سکیم‘Node ID: 594381
-
پاکستان میں آسان قسطوں پر سولر سسٹم کا حصول کیسے ممکن ہے؟Node ID: 887891
صوبائی حکومت کی جانب سے پہلی بار گھر خریدنے والے افراد کو پانچ سے 20 سال کے لیے سبسڈی پر قرض فراہم کیا جائے گا۔ اس قرض پر مارک اپ عام شرحِِ سود سے کم رکھا گیا ہے۔
اس پروگرام کے تحت ٹیئر 1 میں دو ملین روپے (تقریباً 20 لاکھ) تک کا قرض پانچ فی صد مارک اپ اور ٹیئر 2 میں ساڑھے تین ملین روپے (تقریباً 35 لاکھ) تک کا قرض آٹھ فی صد شرح سود کے ساتھ دیا جائے گا۔
ادائیگی کی مدت پانچ سے 20 سال رکھی گئی ہے جب کہ پہلے 10 سال سبسڈی دی جائے گی۔ سکیم کے تحت ڈاؤن پیمنٹ صرف 10 فی صد ہے جب کہ باقی 90 فی صد رقم بینک فراہم کرے گا۔
علاوہ ازیں بیواؤں، شہدا کے بچوں، خواجہ سرا کمیونٹی اور دیگر طبقات کے لیے الگ سکیمیں بھی رکھی گئی ہیں جن میں مارک اپ کی شرح مزید کم ہے۔
شہریوں کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اس سکیم کے تحت حاصل کی جانے والی رقم سے کراچی شہر میں فلیٹ، مکان یا پلاٹ خریدنا ممکن ہے؟
سکیم کا وعدہ اپنی جگہ مگر کراچی کی مارکیٹ کچھ اور ہی حقیقت بیان کرتی ہے۔
ریئل اسٹیٹ ڈیلر باقر علی کے مطابق ’شہر کے مرکزی علاقوں جیسے گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد یا گلستان جوہر میں 80 اور 120 گز کے زیادہ تر مکانات کی قیمتیں ایک کروڑ سے اوپر ہی ہیں۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پلاٹ کی قیمت بھی 60 سے 70 لاکھ روپے سے شروع ہو کر ڈیڑھ کروڑ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔‘

’اس میں اگر تعمیراتی لاگت شامل کر لی جائے تو ایک چھوٹے گھر کی مجموعی قیمت بھی 30 سے 40 لاکھ روپے سے کم نہیں رہتی۔‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ سکیم کے تحت ملنے والا زیادہ سے زیادہ قرض بھی گھر خریدنے کے لیے ناکافی ہے، خاص طور پر اُن شہریوں کے لیے جو کراچی کے مرکزی یا ترقی یافتہ علاقوں میں رہائش چاہتے ہیں۔
عام آدمی کی کہانی
ایک نجی کمپنی میں اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے والے فیصل احمد کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا تھا کہ حکومت کی سکیم سے فائدہ اٹھا کر اپنا گھر بناؤں گا لیکن شاید ایسا ممکن نہیں۔‘
’جب میں نے بینک سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ مجھے زیادہ سے زیادہ 35 لاکھ روپے تک کا قرض مل سکتا ہے۔ کراچی میں تو صرف پلاٹ ہی ایک کروڑ روپے کا ہے۔ پھر میں گھر کیسے بنا سکتا ہوں؟‘
اسی طرح شازیہ پروین جو ایک سکول ٹیچر ہیں، نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اور میرے شوہر دونوں ملازمت پیشہ ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ اپنے بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا فلیٹ خریدیں۔‘

ان مزید کا کہنا ہے کہ ’ہم نے بینک کی سکیم دیکھی، قسطیں تو قابلِ برداشت لگتی ہیں لیکن فلیٹ کی قیمت کم سے کم 65 لاکھ روپے ہے اور اتنی بڑی ڈاؤن پیمنٹ ہمارے پاس نہیں ہے۔‘
ماہرین کی رائے
ریئل اسٹیٹ کے ماہر سید عدنان علی کے مطابق ’اس سکیم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرض کی حد مارکیٹ ریٹ سے میل نہیں کھاتی۔‘
’یہ سکیم چھوٹے شہروں یا مضافاتی علاقوں میں تو کارآمد ہو سکتی ہے جہاں زمین سستی ہے، لیکن کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں زمین کی قیمت بہت زیادہ ہے، عام آدمی اس سکیم سے مکمل طور پر مستفید نہیں ہو سکتا۔‘
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے قرض کی سہولت تو فراہم کی ہے مگر زمین اور تعمیراتی لاگت پر اِس کا کوئی کنٹرول نہیں۔‘
’جب تک زمین کی قیمت کم نہیں ہوتی یا حکومت ڈویلپرز کے ساتھ شراکت داری کر کے کم قیمت رہائشی منصوبے نہیں لاتی، یہ سکیم محدود پیمانے پر ہی فائدہ دے سکے گی۔‘
سید عدنان علی کے مطابق ’اِس کے باوجود کچھ عملی راستے ایسے ہیں جن سے عام شہری سکیم سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
