Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انٹرا پارٹی انتخابات، الیکشن کمیشن نے براہ راست نگرانی کا اختیار مانگ لیا

الیکشن کمیشن نے سفارشات میں خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے بھی اہم مسائل کا ذکر کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت کو انتخابی قوانین میں اہم ترامیم کی سفارش کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات میں مداخلت سمیت متعدد اختیارات مانگ لیے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات کی نگرانی کا اختیار ناگزیر ہے۔ 
الیکشن کمیشن کی جانب سے وزارت قانون کو سفارشات پر مبنی ایک مسودہ بھجوایا ہے جس میں ترامیم تجویز کی گئیں جن کا مقصد سیاسی جماعتوں کے اندراج، انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ اور خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے پائے جانے والے مسائل کو دور کرنا بتایا گیا ہے۔ 
کمیشن نے واضح کیا ہے کہ اگر ان سفارشات کو قانون کا حصہ بنا لیا جائے تو نہ صرف انتخابی عمل زیادہ شفاف اور منظم ہو گا بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری ڈھانچہ مضبوط ہوگا اور خواتین امیدواروں کی سیاسی شمولیت بھی یقینی بنائی جا سکے گی۔
اردو نیوز کو دستیاب مسودے کے مطابق سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات کی شفافیت جانچنے کے لیے قانون میں کوئی شق موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بڑی تعداد میں جماعتیں وجود میں آ جاتی ہیں لیکن ان کے اندر جمہوری ڈھانچہ اور تنظیمی انفراسٹرکچر کمزور رہتا ہے۔
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 208 میں ترمیم کر کے کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے افسران پر مشتمل ٹیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات کا مشاہدہ کرے اور اس کی رپورٹ اپنی سالانہ رپورٹ کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کرے۔ اس طرح نہ صرف جماعتوں کی اندرونی جمہوریت کو فروغ ملے گا بلکہ عوامی اعتماد بھی بڑھے گا کہ سیاسی جماعتیں قانون کے مطابق کام کر رہی ہیں۔
الیکشن کمیشن کی ان سفارشات پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے کیونکہ مختلف جماعتیں پہلے ہی انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ بعض سیاسی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن جماعتوں کے اندرونی انتخابات کو تسلیم نہیں کرتا جس کی وجہ سے سیاسی عمل میں غیریقینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی مثال سامنے ہے جس کے انٹرا پارٹی انتخابات کو تاحال تسلیم نہیں کیا گیا۔ اسی وجہ سے عام انتخابات 2024 میں ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان سے محروم رہی اور اس کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے پر مجبور ہونا پڑا، جس سے نہ صرف سیاسی ماحول میں پیچیدگیاں پیدا ہوئیں بلکہ ووٹرز کو بھی انتخابی عمل میں دشواری کا سامنا رہا۔

کمیشن نے انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی مختلف مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے ان سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر شفاف اور بروقت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی ذمہ داری خود جماعتوں پر عائد ہوتی ہے لیکن ان انتخابات کی توثیق کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر جماعتیں اپنے اندرونی انتخابات کو آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق کرائیں گی تو الیکشن کمیشن کے لیے انہیں تسلیم نہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ تاہم جب جماعتیں انٹرا پارٹی انتخابات کو رسمی کارروائی کے طور پر کرتی ہیں یا قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کرتیں تو الیکشن کمیشن کے پاس انہیں مسترد کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ 
کمیشن نے انتخابات کے حوالے کچھ دیگر تجاویز بھی دی ہیں۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ اس وقت سیاسی جماعتوں کے اندراج کا عمل کھلا ہے اور اس کے لیے کوئی واضح آخری تاریخ موجود نہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ الیکشن شیڈول کے اعلان اور انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے بعد بھی نئی جماعتوں کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئیں جس کے باعث انتخابی انتظامات میں پیچیدگیاں پیدا ہوئیں کیونکہ اس وقت تک نشانات الاٹ ہو چکے ہوتے ہیں۔ 
کمیشن نے تجویز دی ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 202 میں ترمیم کر کے یہ شرط شامل کی جائے کہ ایک بار انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد کسی نئی جماعت کا اندراج نہیں کیا جائے گا اور یہ عمل اس وقت تک رکا رہے گا جب تک کامیاب امیدواروں کے نام سرکاری گزٹ میں شائع نہ ہو جائیں۔ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ انتخابی عمل کو زیادہ واضح اور شفاف بنایا جا سکے اور انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے مرحلے پر کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کو اندراج کے وقت دو ہزار ممبران کی فہرست جمع کرانی ہوتی ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ فہرست غیرمتعلقہ ہو جاتی ہے کیونکہ بعض افراد وفات پا جاتے ہیں، سرکاری ملازمت اختیار کر لیتے ہیں یا رکنیت سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اندراج شدہ جماعتوں کے پاس موجودہ فہرست درست حقائق کی عکاسی نہیں کرتی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے کمیشن نے تجویز دی ہے کہ ہر اندرونی انتخاب کے بعد جماعتوں کو اپنی دو ہزار ممبران کی فہرست اپ ڈیٹ کر کے دوبارہ جمع کرانا ہوگی تاکہ وہ افراد جو اہل نہیں رہتے انہیں نکال دیا جائے اور ریکارڈ تازہ ترین رہے۔

گزشتہ عام انتخابات میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر تحریک انصاف کو نشان الاٹ نہیں کیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

الیکشن کمیشن نے اپنی سفارشات میں 2024 کے عام انتخابات کے دوران انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی مختلف مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ کمیشن کے مطابق اس دوران کُل 150 سیاسی جماعتوں اور ایک اتحاد، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے تھے لیکن ان میں سے صرف 112 جماعتیں عملی طور پر انتخابی میدان میں اتریں۔ بعض جماعتوں نے نشانات لینے کے باوجود انتخاب میں حصہ نہیں لیا جبکہ کچھ جماعتوں نے اپنے پرانے نشانات کے لیے درخواست ہی جمع نہیں کرائی اور یہ نشان دوسری جماعتوں کو دے دیے گئے۔ بعد میں انہی جماعتوں نے دوبارہ وہی نشان طلب کیے جس سے پیچیدگی پیدا ہوئی۔ 
کمیشن نے اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے تجویز دی ہے کہ دفعہ 216 میں ترمیم کر کے یہ واضح کیا جائے کہ مقررہ آخری تاریخ کے بعد کسی جماعت کی جانب سے انتخابی نشانات کے لیے نئی درخواست قبول نہیں کی جائے گی اور یہ اصول ہر عام انتخاب پر یکساں طور پر لاگو ہو گا۔
سفارشات میں خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے بھی اہم مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق ہر جماعت پر لازم ہے کہ وہ کم از کم پانچ فیصد خواتین امیدواروں کو عام نشستوں پر ٹکٹ دے تاہم عام انتخابات 2024 کے دوران اکثر جماعتوں نے امیدواروں کی فہرستیں آخری وقت پر جمع کرائیں، بعض اوقات تو یہ فہرستیں اس دن پیش کی گئیں جب ریٹرننگ افسر انتخابی نشانات الاٹ کر رہے تھے۔ اس وجہ سے کمیشن مؤثر طور پر اس شرط پر عمل درآمد نہ کرا سکا۔
 سفارشات میں تجویز دی گئی ہے کہ دفعہ 215 میں نئی شق شامل کی جائے جس کے تحت اگر کوئی جماعت خواتین کی پانچ فیصد نمائندگی کی شرط پوری نہ کرے تو اسے آئندہ ضمنی انتخابات میں اپنے انتخابی نشان پر حصہ لینے سے روک دیا جائے اور دس ملین روپے جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔ اس اقدام کا مقصد خواتین کی سیاسی شمولیت کو محض کاغذی نہیں بلکہ عملی طور پر یقینی بنانا ہے۔

 

شیئر: