Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

درآمد شدہ گاڑیاں عوام کے لیے فائدہ مند یا ملکی صنعت کے لیے نقصان؟

پاکستان میں حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی کمرشل درآمد کے معاملے میں پیش رفت کے بعد آٹو مارکیٹ میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ایک طرف جہاں عوام اور درآمد کنندگان اس فیصلے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب مقامی آٹو انڈسٹری سے وابستہ افراد اس اقدام کو ملکی پیداوار کے لیے نقصان دہ ٹھہرا رہے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق وزارتِ صنعت و پیداوار نے حالیہ پالیسی کے تحت مخصوص شرائط کے ساتھ بیرونِ ملک سے تیار شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد ملک میں گاڑیوں کی قلت، قیمتوں میں اضافے اور صارفین کے محدود انتخاب کو بتایا جا رہا ہے۔

’سستی گاڑی اب عام آدمی کی پہنچ میں ہو گی‘

آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن سندھ کے صدر چوہدری عامر علی خان نے اردو نیوز سے گفتگو میں اس فیصلے کو ملک میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا۔
ان کے مطابق کمرشل امپورٹ کے کھلنے سے پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی اور سستی گاڑی اب عام آدمی کی پہنچ میں ہو گی۔ عوام کے پاس اب یہ آپشن ہو گا کہ وہ اپنی مرضی کی گاڑی بیرونِ ملک سے منگوا سکیں۔
چوہدری عامر علی خان کا کہنا تھا کہ ’یہ مطالبہ طویل عرصے سے کیا جا رہا تھا کہ حکومت گاڑیوں کی درآمد پر پابندیاں ختم کرے تاکہ مارکیٹ میں مقابلے کی فضا پیدا ہو، اب امید ہے کہ جلد ہی پاکستان میں کمرشل امپورٹ کی اجازت مل جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم بہت عرصے سے یہی کہتے آئے ہیں کہ اگر کمرشل امپورٹ کھولی جائے تو مقامی اسیمبلرز پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ وہ بہتر کوالٹی کی گاڑیاں کم قیمت پر فراہم کریں۔ اب جب مقابلہ شروع ہو گا تو اس کا براہِ راست فائدہ صارف کو ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس پالیسی سے غیرقانونی طریقوں سے گاڑیاں لانے کا سلسلہ بھی رُک جائے گا۔
چوہدری عامر علی خان کے مطابق اگر حکومت اس پالیسی پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے تو یہ آٹو سیکٹر میں ایک ’انقلاب‘ ثابت ہو سکتا ہے

چوہدری عامر علی خان کے مطابق عوام کے پاس اب یہ آپشن ہو گا کہ وہ اپنی مرضی کی گاڑی بیرونِ ملک سے منگوا سکیں۔ (فائل فوٹو: اردو نیوز)

’مقامی انڈسٹری بند ہو گی، بے روزگاری بڑھے گی‘
دوسری جانب مقامی آٹو پارٹس انڈسٹری سے وابستہ افراد اس پالیسی کے شدید مخالف نظر آ رہے ہیں۔
آٹو پارٹس میکر سید اسد علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے اگر تیار شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کھلی اجازت دی تو اس سے ملکی صنعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
ان کے مطابق پاکستان میں کمرشل امپورٹ کے بعد لوکل آٹو انڈسٹری تباہ ہو جائے گی۔ یہاں درجنوں فیکٹریاں ایسی ہیں جو مقامی پرزہ جات بنا کر روزگار کے ہزاروں مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ اگر باہر سے تیار گاڑیاں آئیں گی تو ان فیکٹریوں کی ضرورت ہی ختم ہو جائے گی۔
سید اسد علی کا کہنا تھا کہ ’انڈسٹری کے بند ہونے سے نہ صرف بے روزگاری میں اضافہ ہو گا بلکہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بھی متاثر ہو سکتی ہے۔‘
’ہزاروں مزدوروں اور ٹیکنیشنز کا روزگار ان فیکٹریوں سے جڑا ہے۔ جب صنعت بند ہوگی تو لوگ سڑکوں پر آئیں گے، جس سے مجموعی طور پر معیشت اور سماجی حالات پر دباؤ بڑھے گا۔
انہوں نے معاشی پہلو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گاڑیوں کی درآمد کے نتیجے میں قیمتی زرمبادلہ بھی ملک سے باہر جائے گا۔
’پاکستان پہلے ہی ڈالر کے بحران سے دوچار ہے۔ ہم اگر اب تیار شدہ گاڑیاں درآمد کریں گے تو ڈالر باہر جائیں گے۔ بہتر یہ ہے کہ حکومت مقامی سطح پر ٹیکسوں میں کمی کرے تاکہ ملک کے اندر تیار ہونے والی گاڑیاں بھی عام آدمی کی پہنچ میں آ سکیں۔

سید اسد علی نے کہا کہ ’حکومت نے اگر تیار شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کھلی اجازت دی تو اس سے ملکی صنعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

’مقامی صنعت سکڑ سکتی ہے‘

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام بظاہر عوام کے لیے ریلیف کا ذریعہ بن سکتا ہے مگر مستقبل میں یہ فیصلہ مقامی انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آٹو سیکٹر کے تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کمرشل درآمد کی اجازت غیرمحدود مدت کے لیے برقرار رہی تو پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کی طلب کم ہو جائے گی، جس سے مقامی صنعت سکڑ سکتی ہے۔ تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مقامی کمپنیوں نے طویل عرصے سے صارفین کو محدود ماڈلز اور زیادہ قیمتوں میں الجھا رکھا ہے جس سے مارکیٹ میں مسابقت کی فضا ختم ہوئی۔
آٹو سیکٹر امور کے ماہر مشہود علی خان کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایک متوازن پالیسی اپنائے جس میں نہ صرف عوام کو سستی گاڑیوں کی سہولت ملے بلکہ مقامی صنعت کو بھی تحفظ دیا جائے۔
یہ ممکن ہے کہ حکومت کمرشل درآمد کو محدود تعداد یا مخصوص کیٹیگری کی گاڑیوں تک رکھے جبکہ لوکل انڈسٹری کے لیے ٹیکس اور ریسرچ سپورٹ فراہم کرے تاکہ وہ عالمی معیار پر مقابلہ کر سکے۔

 

شیئر: