یورپی یونین نے اپنے رکن ممالک میں غیرقانونی طور پر مقیم رہنے والوں اور ویزے کی مدت پوری ہونے کے بعد روپوش ہو جانے والے افراد پر قابو پانے کے لیے ایک نیا ڈیجیٹل بارڈر کنٹرول سسٹم نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس اقدام کا براہ راست اثر پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، انڈیا اور دیگر ایشیائی ممالک کے شہریوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔
اس ڈیجیٹل بارڈر کنٹرول سسٹم کو ’انٹری ایگزٹ سسٹم‘ یا ’ای ای ایس‘ کا نا دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
گزشتہ دو تین دہائیوں میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، انڈیا اور دیگر ایشیائی ممالک کے شہری یورپ جانے کے لیے مختلف راستے اختیار کرتے رہے ہیں۔ ان میں ایک سب سے خطرناک اور غیرقانونی راستہ وہ ہے جسے عام زبان میں ’ڈنکی‘ کہا جاتا ہے۔
اس میں لوگ انسانی سمگلروں کے ذریعے ترکیہ، ایران، لیبیا یا دیگر راستوں سے جنگلات، سمندروں اور صحراؤں کو عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے سفر نہ صرف جان لیوا ثابت ہوئے بلکہ ہر سال درجنوں پاکستانی اور دیگر ممالک کے نوجوان سمندر میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
دوسری طرف ایک قانونی راستہ بھی ہے جو بظاہر محفوظ دکھائی دیتا ہے۔ اس میں لوگ وزٹ ویزا حاصل کر کے یورپ جاتے ہیں مگر مقررہ مدت پوری ہونے کے بعد واپس آنے کے بجائے روپوش ہو جاتے ہیں۔
ان میں سے کچھ سیاسی پناہ کی درخواست دیتے ہیں جبکہ بعض برسوں غیرقانونی طور پر رہنے کے بعد مقامی قوانین اور رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقل رہائش حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یورپی یونین کے اندازوں کے مطابق صرف پچھلے 20 برس میں لاکھوں افراد نے وزٹ ویزا پر یورپ جا کر واپس نہ آنے کی حکمت عملی اپنائی ہے جس کے باعث یورپی ممالک پر سکیورٹی اور سماجی دباؤ میں اضافہ ہوا۔

یورپی یونین کی جانب سے متعارف کرائے گئے ’انٹری ایگزٹ سسٹم‘ (ای ای ایس) کے مرحلہ وار نفاذ کا آغاز 12 اکتوبر 2025 سے ہو گا اور اپریل 2026 تک پورے یورپ میں مکمل طور پر فعال کر دیا جائے گا۔ اس کے تحت اب روایتی طریقے سے پاسپورٹ پر سٹیمپ لگانے کے بجائے ڈیجیٹل اندراج ہو گا جس سے ہر وہ شخص جو یورپی ممالک میں داخل ہو گا یا وہاں سے نکلے گا، خود بخود ایک سنٹرل کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ میں درج ہو جائے گا۔
بائیومیٹرک ڈیٹا اور چہرے کی تصاویر بھی محفوظ کی جائیں گی
یورپی حکام کے مطابق اس نئے نظام کا بنیادی مقصد یورپ میں داخلے اور اخراج کو بہتر طریقے سے مانیٹر کرنا، بارڈر کنٹرول کو جدید بنانا اور ان افراد کو پکڑنا ہے جو ویزے کی مقررہ مدت سے زیادہ قیام کرتے ہیں۔
’ای ای ایس‘ کے تحت ہر غیریورپی اور غیر شینجن شہری کا داخلہ اور اخراج مکمل طور پر ڈیجیٹل انداز میں ریکارڈ ہو گا۔
اس میں نہ صرف تاریخ اور مقام درج کیا جائے گا بلکہ اس شخص کا بائیومیٹرک ڈیٹا یعنی فنگر پرنٹس اور چہرے کی تصویر بھی محفوظ کی جائے گی تاکہ شناخت میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔
یہ نظام یورپی یونین کے بارڈر حکام کو یہ سہولت فراہم کرے گا کہ جیسے ہی کوئی مسافر اپنی 90 دن یا 180 دن کی مدت پوری کرتا ہے تو سسٹم خودکار طریقے سے ایک الرٹ جاری کرے گا۔
اس سے مقامی حکام کو فوری طور پر علم ہو جائے گا کہ کون شخص مقررہ وقت سے زیادہ قیام کر رہا ہے اور اسے ٹریس کر کے حراست یا ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔
’ای ای ایس‘ کے دیگر اہم پہلوؤں میں یہ شامل ہے کہ یہ نظام پرانے اور وقت طلب طریقے یعنی پاسپورٹ سٹیمپنگ کی جگہ لے گا اور بارڈر کراسنگ کا عمل تیز تر اور مؤثر بنائے گا۔ مسافر کے داخلے اور اخراج سے متعلق تمام الیکٹرانک ریکارڈ ایک مرکزی ڈیٹا بیس میں محفوظ ہوں گے جس تک بارڈر حکام، سکیورٹی ایجنسیاں اور امیگریشن ادارے بآسانی رسائی حاصل کر سکیں گے۔

یورپی یونین کے مطابق اس نظام کے نفاذ سے ’شفافیت‘ میں اضافہ ہوگا جبکہ جعلی دستاویزات، انسانی سمگلنگ اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں لاکھوں افراد پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور دیگر ایشیائی ممالک سے وزٹ ویزا یا دیگر مختصر المدتی ویزوں پر یورپ پہنچے اور پھر وہیں روپوش ہو گئے۔ کئی ایک نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی جبکہ کئی برسوں تک غیر قانونی طور پر رہنے کے بعد مقامی قوانین کا فائدہ اٹھا کر رہائشی اجازت نامے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
’ای ای ایس‘ انہی مسائل کے سدباب کے لیے نافذ کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں ویزہ کی مدت پوری ہونے کے بعد کسی کو بھی باآسانی ٹریس کیا جا سکے۔
’اب پاکستانی نوجوانوں کے لیے یورپ پہنچنا ہی کافی نہیں ہو گا‘
پاکستانی ماہرِ امیگریشن عدنان خان کے مطابق ’یہ نظام جنوبی ایشیائی ممالک کے شہریوں پر براہِ راست اثر ڈالے گا۔ اب وہ پرانے طریقے جن میں لوگ وزٹ ویزا پر جا کر واپس نہیں آتے تھے، تقریباً ختم ہو جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے یورپ پہنچنا ہی کافی نہیں ہو گا بلکہ وہاں قیام کو قانونی بنائے رکھنا بھی مشکل تر ہو جائے گا۔‘
