عمران خان کی صحت ٹھیک ہے، انہیں کہیں اور منتقل نہیں کیا جارہا: جیل حکام
عمران خان کی صحت ٹھیک ہے، انہیں کہیں اور منتقل نہیں کیا جارہا: جیل حکام
جمعرات 27 نومبر 2025 15:45
عمران خان اگست 2023 سے جیل میں ہیں اور کرپشن کے الزامات پر 14 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے کہا ہے کہ وہ ان کی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں کیونکہ انہیں تین ہفتوں سے اپنے اہلِ خانہ اور وکلاء سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عمران خان اگست 2023 سے جیل میں ہیں اور کرپشن کے الزامات پر 14 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہ ان درجنوں مقدمات میں سے ایک ہے جنہیں عمران خان کہتے ہیں کہ فوج نے انہیں سیاست سے دور رکھنے کے لیے بنایا، تاہم فوج ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ترجمان زلفی بخاری نے کہا کہ 4 نومبر کے بعد سے کسی نے عمران خان کو نہیں دیکھا اور ملاقات نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ عمران خان کو سابق وزیرِاعظم ہونے کے باوجود ملاقات اور طبی سہولت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
زلفی بخاری نے رائٹرز کو بتایا کہ ’ان کی صحت کے بارے میں فکرمند ہیں۔ ہم ان کی غیر قانونی تنہائی پر پریشان ہیں۔‘
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خان کے اہلِ خانہ کو فوری طور پر ان تک رسائی دی جائے۔
’عمران خان کہاں ہیں؟‘
عمران خان کے اہلِ خانہ اور پارٹی کارکنان نے حالیہ دنوں میں راولپنڈی کی جیل کے باہر احتجاج کیا اور ملاقات کا مطالبہ کیا۔ زلفی بخاری نے کہا کہ وہ جمعرات کو دوبارہ جیل جائیں گے تاکہ اپنا مطالبہ دہرائیں۔
جیل کے قوانین کے مطابق عمران خان کو کم از کم ہفتے میں ایک بار ملاقات کی اجازت ہے، تاہم حکام اس رسائی کو معطل کر سکتے ہیں۔ پارٹی نے کہا کہ کئی ہفتوں تک خان کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔
مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ 73 سالہ سابق کرکٹر کو ایک ہائی سکیورٹی جیل میں منتقل کیا جا سکتا ہے تاکہ ملاقات مزید مشکل ہو جائے۔
مئی 2023 میں خان کی گرفتاری نے ملک بھر میں فوج کے خلاف احتجاج کو جنم دیا (فوٹو: اے ایف پی)
عمران خان کی صورتحال سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بن گئی ہے اور جمعرات کو ایکس پر #WHEREISIMRANKHAN ٹرینڈ کر رہا تھا۔
پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
عمران خان کی صحت ٹھیک ہے، جیل حکام کا مؤقف
ایک جیل اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کی صحت ٹھیک ہے اور انہیں کسی دوسری جیل میں منتقل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔
عمران خان 2018 میں وزیرِاعظم منتخب ہوئے تھے اور 2022 میں فوجی جرنیلوں سے اختلافات کے بعد پارلیمنٹ میں ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
مئی 2023 میں خان کی گرفتاری نے ملک بھر میں فوج کے خلاف احتجاج کو جنم دیا، جس کے بعد پارٹی پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔
پارٹی 2024 کے انتخابات میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی لیکن اس کا کہنا ہے کہ دھاندلی کے ذریعے اس کی نشستیں کم کر کے دیگر جماعتوں کو وزیراعظم شہباز شریف کے تحت حکومت بنانے میں مدد دی گئی۔ شہباز شریف اور ان کے اتحادی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ آج ہماری ان سے ملاقات ہو جائے، کیونکہ غیر یقینی صورتحال میں اضطراب اور تشویش بڑھ رہی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
’آج بھی ملاقات کی اجازت نہ دی گئی تو ہم یہیں موجود ہیں‘
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی جمعرات کو عمران خان سے ملاقات کے لیے ایک مرتبہ پھر اڈیالہ جیل پہنچے جہاں میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’کل سے میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ہمارے لیڈر اور قائد جناب عمران خان کی طبیعت ناساز ہے یا مختلف افواہیں پھیل رہی ہیں۔ آج یہ خبریں نہ صرف قومی میڈیا بلکہ بین الاقوامی میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہیں، جس سے ہماری تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔‘
’ہم چاہتے ہیں کہ آج ہماری ان سے ملاقات ہو جائے، کیونکہ غیر یقینی صورتحال میں اضطراب اور تشویش بڑھ رہی ہے، اور یہ عوام میں بے چینی کا باعث بن رہی ہے۔ ایسی کیفیت طویل ہوئی تو قوم سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر آج بھی ملاقات کی اجازت نہ دی گئی تو ہم یہیں موجود ہیں اور اس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل مشاورت سے طے کریں گے۔‘