Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیپ فیک: چند سیکنڈز کی ویڈیو نے سوات طالب علم کا مستقبل داؤ پر لگا دیا

جب سے سوشل میڈیا پر شارٹ ریلز کا رجحان بڑھا ہے تو کئی صارفین خاص کر نوجوان اپنی دن بھر کی کسی ایکٹیوٹی کو ویڈیو کی صورت میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔
ویڈیو کو دلچسپ بنانے کے لیے اُس پر مختلف فلٹرز لگائے جاتے ہیں، بیک گراؤنڈ میں شاعری یا موسیقی کا تڑکا لگایا جاتا ہے اور سلو موشن کے ساتھ بھی کلپ کو متاثر کُن بنایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لائکس اور ویوز آ سکیں۔
ٹیکنالوجی کے اِس دور میں اب یہ ایک عام پریکٹس بن چکی ہے لیکن چند سیکنڈ کا ویڈیو کلپ بیٹھے بٹھائے کسی کو مشکل میں ڈال سکتا ہے، ایسا شاید آپ نے پہلے نہ سوچا ہو۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی یونیورسٹی آف سوات کے طالب علم حافظ نعمان (فرضی نام) نے بھی جب اپنا ویڈیو کلپ اپ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو انہیں بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنے لیے ایک بڑی مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں۔
ویڈیو میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور ایک دوست انہیں ہاتھ سے آگے جانے کا اشارہ کرتا ہے جس پر وہ آگے بڑھ جاتے ہیں اور میز پر رکھے کسی کاغذ پر دستخط کرتے ہیں۔ میز کے قریب دو برقع پوش لڑکیاں چہرے پر ماسک پہنے کھڑی ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکی کو ویڈیو میں فوکس کر کے دِکھایا جاتا ہے جو انہیں دیکھ رہی ہے اور پھر اُسے بعد میں مُسکراتے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس چھوٹے سے کلپ کو سلو موشن، شاعری اور میوزک نے ایسا رومانوی رنگ دے دیا کہ دیکھنے والوں نے کئی کہانیاں گھڑ لیں۔ جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں کون ہیں اور ان کے درمیان کیا تعلق ہے لیکن آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیو کو اس طرح ایڈٹ کیا گیا کہ پورا منظر ہی بدل گیا۔
کسی ویڈیو میں لڑکی ماسک اُتار کر لڑکے کو تھپڑ مار رہی ہے تو ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ لڑکا اُس کے بجائے ساتھ کھڑی دوسری لڑکی کو انگوٹھی پہنا رہا ہے اور بیک گراؤنڈ میں بےوفائی کے موضوع پر شاعری چل رہی ہے۔ ایسی ہی ایک اور ویڈیو میں لڑکی لڑکے کا گریبان پکڑ کر غصے کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہے۔
یہی نہیں بلکہ اُس لڑکی کا فرضی انٹرویو بھی منظرِعام پر آ گیا ہے جس میں وہ بتا رہی ہیں کہ لڑکا انہیں پروپوز کر رہا تھا جبکہ انہوں نے انکار کر دیا۔
یہ تمام ویڈیوز اے آئی سے بنائی گئی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ یہ ویڈیوز حافظ نعمان نے نہیں بنائیں لیکن انہیں اس کی سزا بگھتنا پڑ رہی ہے۔
یونیورسٹی آف سوات میں کمپیوٹر سائنسز کے طالب علم حافظ نعمان (فرضی نام) کی یہ ویڈیو یونیورسٹی میں پہلے دن بنی تھی۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ’یونیورسٹی میں میرا داخلہ ہوا تو ہمارے لیے ایک اورینٹیشن ڈے رکھا گیا۔ اس دوران ہمیں سٹال پر دستخط کرنا تھے۔ میں نے وہاں ایک ویڈیو بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جبکہ ایک اور ویڈیو بھی بنی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرا کسی لڑکی کے ساتھ ویڈیو بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن جانے انجانے میں ایسی ویڈیو بن گئی جس سے دیکھنے والوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔‘
حافظ نعمان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سے وہ مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ ’اب مجھے یونیورسٹی آنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ میرے خلاف مقدمہ درج ہوگا یا سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔ اصل مسئلہ تب بنا جب اس مختصر سی ویڈیو کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے مختلف رنگ دے دیا گیا۔‘
حافظ نعمان کہتے ہیں کہ انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ ایک مختصر سا کلپ اتنا بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ ’میں نے یہ ویڈیو اپنے پیج پر اپ لوڈ کی تھی۔ وہاں سے لوگوں نے اسے ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی مرضی سے شیئر کیا اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے ایڈٹ کر دیا۔ نہ مجھے ایڈیٹنگ آتی ہے، نہ میرے اتنے فالوؤرز ہیں۔ میں کیوں کسی کو بدنام کروں گا؟ یہ بس ایک غلطی تھی۔‘
انہوں نے ویڈیو وائرل ہوتے ہی اسے اپنے پیج سے فوراً ڈیلیٹ کر دیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
حافظ نعمان نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ انتظامیہ ’بیڈ کریکٹر سرٹیفکیٹ‘ بھی جاری کر سکتی ہے جس کی وجہ سے ان کے مستقبل میں کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے کے امکانات تقریباً ختم ہوجائیں گے۔
مصنوعی ذہانت، ڈیپ فیک ویڈیوز اور سوشل میڈیا ٹرینڈز پر نظر رکھنے والی تنظیم ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے سربراہ اسد بیگ اس معاملے کو بہت سنگین قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی میں صحافت اور مصنوعی ذہانت کے موضوع پر تین روزہ سمٹ کا انعقاد بھی کیا تھا۔
اسد بیگ سمجھتے ہیں کہ ایسی ویڈیوز بنانا اور پھیلانا صرف غیر اخلاقی ہی نہیں بلکہ قانونی جرم بھی ہے۔
’آپ جب مصنوعی ذہانت سے کسی کی تصویر یا ویڈیو میں ایسا رنگ بھرتے ہیں جس سے وہ مشکل میں پڑ جائے تو یہ سیدھا سیدھا جرم ہے۔ پیکا اور ہتکِ عزت کے قوانین اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ اس میں جیل اور جرمانے دونوں شامل ہیں۔‘
اسد بیگ بتاتے ہیں کہ ’مسئلہ صرف یہ نہیں کہ لوگ اے آئی استعمال کر رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ اس کے نتائج سے ناواقف ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن انفارمیشن لیٹریسی میں اس تیزی سے اضافہ نہیں ہو رہا۔ لوگ ایسی ویڈیوز اور تصاویر بنانے کا ہنر سیکھ گئے ہیں لیکن اس کے اثرات، نقصان، خدشات اور قانونی حدود کا علم نہیں رکھتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سول سوسائٹی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔ اصل حل حکومتی سطح پر آگاہی مہم، قوانین پر عمل درآمد اور تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل لیٹریسی کے نصاب کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‘
’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے سربراہ اسد بیگ کے مطابق ریاستی سطح پر جب تک اقدامات نہیں ہوں گے، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
وہ ان  واقعات کا شکار ہونے والوں کو عملی مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایسی ویڈیوز بنانا اور بلیک میل کرنا بہت آسان ہو چکا ہے لیکن گھبرانے کے بجائے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اعتماد میں لیں اور انہیں بتائیں کہ آج کل یہ سب بنانا بہت آسان ہے، اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔‘

 

شیئر: