Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل اور حماس میں جنگ کے خاتمے کا معاہدہ، غزہ کی سڑکوں پر جشن کا سماں

اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ طے پانے کی خبر جیسے ہی سامنے آئی، فلسطینیوں اور اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے جشن منانا شروع کر دیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق غزہ جہاں اسرائیلی فوج کی بمباری کے باعث 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، نوجوان تباہ شدہ گلیوں میں تالیاں بجاتے ہوئے نکل آئے اگرچہ کچھ علاقوں میں اسرائیلی حملے اب بھی جاری تھے۔

غزہ میں، نوجوان ٹولیوں کی شکل میں سڑکوں پر خوشیاں مناتے نظر آ رہے ہیں۔
ایک نوجوان کو اس کے دوست نے خوشی میں اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھا تھا اور وہ تالیاں بجا رہا تھا۔
خان یونس شہر سے تعلق رکھنے والے فلسطینی خالد شعث نے کہا کہ ’یہ وہ لمحات ہیں جن کا فلسطینی شہری دو سال سے قتل و غارت اور نسل کشی کے بعد شدت سے انتظار کر رہے تھے۔‘

جنوبی غزہ  کے علاقے خان یونس میں موجود عبدالمجید عبدربہ نے کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ جنگ بندی ہوئی، خون خرابہ اور قتل و غارت کا خاتمہ ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں اکیلا خوش نہیں ہوں، پورا غزہ خوش ہے۔ تمام عرب عوام خوش ہیں، پوری دنیا جنگ بندی اور خون خرابے کے خاتمے پر خوش ہے۔ شکریہ اور ان تمام لوگوں کو پیار جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔‘

تل ابیب کے ’ہوسٹیجز سکوائر‘ میں موجود ایک یرغمالی کی والدہ عینا زوگاوکر خوشی سے سرشار تھیں۔ 
انہوں نے پُرجوش ہو کر کہا کہ ’میں سانس نہیں لے پا رہی، میں بیان نہیں کر سکتی کہ کیا محسوس کر رہی ہوں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے بیٹے ماتان، سے کیا کہیں گی، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’اسے گلے لگاؤں گی، چوموں گی، بس۔ اس سے کہوں گی کہ میں اسے پیار کرتی ہوں۔

’ہوسٹیجز سکوائر‘ وہ مقام ہے جہاں دو سال قبل حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی واپسی کا مطالبہ کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
سابق یرغمالی، عمر شم-توف سے جب اس لمحے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔‘
حماس اور اسرائیل نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجویز کردہ غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا ہے جس کے بعد دو سال سے جاری جنگ کے اختتام کی امید پیدا ہو گئی ہے۔

 

شیئر: