حماس اور اسرائیل نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجویز کردہ غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا ہے جس کے بعد دو سال سے جاری جنگ کے اختتام کی امید پیدا ہو گئی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مصر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت صدر ٹرمپ کے 20 نکات پر مبنی فریم ورک کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
بدھ کی رات گئے امریکی صدر نے معاہدہ طے پانے کے حوالے سے اعلان کیا تاہم انہوں نے تفصیل نہیں بتائی جس سے کئی سوال پیدا ہو گئے ہیں کہ کیا یہ معاہدہ بھی ماضی کی کوششوں کی طرح ناکام ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنے بیان میں کہا، ’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے فخر ہے کہ اسرائیل اور حماس دونوں نے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا ہے۔‘
’اس کا مطلب ہے کہ تمام یرغمالیوں کو بہت جلد رہا کر دیا جائے گا اور اسرائیل مضبوط، پائیدار اور لازوال امن کی جانب پہلے اقدامات کے طور پر اپنی فوجوں کو طے شدہ حد تک واپس بلا لے گا۔‘
صدر ٹرمپ کے منصوبے پر مکمل عمل درآمد کی صورت میں دونوں فریقین جنگ ختم کرنے کے مزید قریب آ سکتے ہیں جو ایک علاقائی تنازعے میں تبدیل ہو چکی ہے، جس نے ایران، یمن اور لبنان جیسے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا، اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر مزید تنہا کر دیا اور مشرق وسطیٰ کو ایک نئی شکل دی۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ معاہدہ تقریباً طے پا چکا ہے اور ممکن ہے کہ وہ سنیچر کو مصر کے لیے روانہ ہوں۔
تاہم صدر کے دورے کے حوالے سے وائٹ ہاؤس نے فی الحال کوئی بیان نہیں جاری کیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے تحریری پیغام میں یرغمالیوں کے حوالے سے کہا ’خدا کی مدد سے ہم ان سب کو واپس لے آئیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے کی منظوری کے لیے جمعرات کو کابینہ کا اجلاس طلب کریں گے۔
حماس نے بھی جاری بیان میں معاہدہ طے پانے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی فوجوں کے غزہ سے انخلا اور یرغمالیوں کے تبادلے پر اتفاق ہوا ہے۔
حماس نے صدر ٹرمپ اور ضامن ریاستوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیل جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد کرے۔