Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصر میں مذاکرات، یرغمالیوں اور قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کر لیا: حماس

صدر ٹرمپ پرامید ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ طے پانے کا ’حقیقی امکان‘ موجود ہے: (فوٹو: اے ایف پی)
حماس کے سینیئر رہنما طاہر النونو نے کہا ہے کہ اسرائیل کے مذاکرات کاروں کے ساتھ یرغمالیوں اور قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ کر لیا گیا ہے جو معاہدے کی کامیابی کی صورت میں چھوڑے جائیں گے۔
عرب نیوز کے مطابق مصر میں جاری مذاکرات کے دوران بدھ کو جاری کیے گئے اس بیان میں طاہر النونو کا یہ بھی کہنا تھا کہ حماس نے معاہدے تک پہنچنے کے لیے امید ظاہر کی ہے اور گروپ کی جانب سے اس ضمن میں مثبت رویہ اپنایا گیا ہے۔
قطر کے وزیراعظم کے علاوہ امریکہ اور ترکیہ کے سینیئر مندوبین نے بدھ کو حماس اور اسرائیل کے مذاکرات کاروں کے ساتھ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے حوالے سے تیسرے روز بھی بات چیت کی۔
اسرائیل اور حماس مصر کے علاقے شرم الشیخ میں ہونے والے مذاکرات میں بالواسطہ طور پر حصہ لے رہے ہیں، جو کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے جاری کیے گئے 20 نکاتی مجوزہ پلان کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، یہ منصوبہ انہوں نے پچھلے ماہ پیش کیا تھا۔
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی، ترکیہ کے انٹیلی جنس چیف ابراہیم کلین، صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندہ برائے مشرق وسطیٰ سٹیو وٹکوف اور ان کے داماد جیریڈ کوشنر بھی ان مذاکرات میں شریک ہونے والے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے نے اوول آفس میں منگل کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک حقیقی موقع ہے کہ ہم کچھ کرنے جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مذاکرات میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے مذاکرات کار بھی شامل تھے۔
’میرے خیال میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ ہم مشرق وسطیٰ میں امن قائم کر سکیں یہ غزہ کی صورت حال سے بھی آگے کی چیز ہے ہم فوری طور پر یرغمالیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔‘
صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حماس اور اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہو جاتے ہیں تو امریکہ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا کہ ہر کوئی معاہدے کی پاسداری کرے۔
دوسری جانب غزہ میں اس جنگ کو بند کرنے کے لیے عالمی طور پر بھی دباؤ بڑھ گیا ہے جس سے غزہ کا زیادہ حصہ تباہ ہو چکا ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ علاقے کو قحط کا سامنا ہے اور یرغمالیوں کے خاندان والے اب بھی اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے ہونے والے تحقیقات کے نتیجے میں پچھلے ماہ اسرائیل پر نسل کشی کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔
پچھلے ہفتے ویک اینڈ کے موقع پر دنیا بھر کے کئی شہروں میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے جن میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور فوری طور پر جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان ممالک میں اٹلی، سپین، آئر لینڈ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک شامل تھے۔
اسی طرح نیدرلینڈز میں ہونے والے مظاہرے میں شریک لوگوں نے اپنی حکومت سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ برطانیہ میں ہزاروں کی تعداد میں نکلنے والے لوگوں نے وزیراعظم کیر سٹارمر کے مظاہرے روکنے کے مطالبے کو مسترد کیا۔
سات اکتوبر کو غزہ پر حملے کو دو سال مکمل ہونے کے موقع پر ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد نے مشعلیں اٹھا رکھی تھیں۔
حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیا کا کہنا ہے کہ ہمارا گروپ صدر ٹرمپ اور سپانسر ممالک سے ضمانت چاہتا ہے کہ جنگ مکمل طور پر بند کی جائے گی۔
 

شیئر: