پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے اپنا استعفی گورنر فیصل کریم کنڈی کو ارسال کر دیا ہے جبکہ نامزد وزیراعلٰی سہیل آفریدی وزارت اعلیٰ کا قلم دان سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
نئے قائد ایوان کے لیے نامزد امیدوار کی حمایت کے لیے گزشتہ رات پشاور میں پارلیمنٹیرینز کا اجلاس بلایا گیا جس میں عمران خان کے فیصلے کی روشنی میں نامزد وزیراعلٰی کی حمایت پر اتفاق ہوا۔
دوسری جانب علی امین گنڈا پور کو عہدے سے ہٹانے کے بعد اپوزیشن جماعتیں بھی سرگرم نظر آ رہی ہیں۔ نامزد وزیراعلٰی کا نام سامنے آتے ہی اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد نے گورنر خیبر پختونخوا سے ملاقات کر کے موجودہ حالات پر تبادلۂ خیال کیا۔
مزید پڑھیں
-
میں پاسپورٹ کے بغیر بھی افغانستان چلا جاؤں گا: علی امین گنڈاپورNode ID: 894451
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’صوبے کو بچوں کے حوالے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عوام کے ووٹوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دی جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نمبر گیم کا کھیل ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 91 اراکین آزاد ہیں۔ آج اپوزیشن اراکین کا اجلاس بلایا گیا ہے جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا جس کے بعد اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلٰی کے لیے امیدوار سامنے لایا جائے گا۔‘
ڈاکٹر عباد نے کہا کہ ’اپوزیشن کی حکمتِ عملی حالات کی مناسبت سے ہو گی۔ صوبے کے رہنما فیصلہ کرکے مرکزی قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے۔‘
نئے وزیراعلٰی کو کیا مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں؟
سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ خیبر پختونخوا میں نئے وزیراعلٰی کے لیے ٹف ٹائم کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ صوبے کو سنگین مسائل جیسے امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال، مالی مشکلات اور وفاق سے کشیدہ تعلقات کی طرح کے اہم مسائل درپیش ہیں۔ دوسری جانب پارٹی کے اندرونی معاملات بھی نومنتخب وزیراعلٰی کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوں گے۔
سینیئر صحافی محمود جان بابر کے مطابق نئے وزیراعلٰی کو مسائل کے حل کے لیے نہیں بلکہ وفاق کو ٹف ٹائم دینے کے لیے لایا جا رہا ہے تاکہ وہ وفاق سے ٹکراؤ کی سیاست کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ’نامزد وزیراعلٰی کا حلقہ باڑہ اور تیراہ وغیرہ دہشت گردی سے زیادہ متاثر ہیں تاہم نئے وزیراعلٰی سے قبائلی علاقوں میں کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی۔‘

محمود جان بابر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سہیل آفریدی نے ہمیشہ دہشت گردی اور عمران خان کے معاملے پر کھل کر بیانیہ پیش کیا ہے اس معاملے پر نامزد وزیراعلٰی نے وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کو للکارا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’شاید ان کا بے لچک بیانیہ اور عمران خان سے وفاداری کی وجہ سے ہی ان کو وزیراعلٰی بنایا جا رہا ہے تاہم ان کے پاس تجربہ ناکافی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صوبے میں گورننس اسی طرح رہے گی کیوں کہ افسرِ شاہی یعنی بیوروکریٹس کو سمجھنے کی لیے ان کو وقت درکار ہوگا اور وہ جب کچھ سمجھنے لگیں گے تو ان کے جانے کا وقت ہو جائے گا۔‘
تجزیہ کار ارشد عزیز ملک کا مؤقف ہے کہ ’سہیل آفریدی کے لیے وزارت اعلیٰ کے امور چلانا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ لا اینڈ آرڈر سمیت صوبے کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جیسے معیشت، پارٹی کے اندرونی حالات اور سب سے بڑھ کر عمران خان کی رہائی کی تحریک ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نئے وزیراعلٰی کے لیے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو بیک وقت خوش رکھنا مشکل ہوگا۔ سب کو معلوم ہے کہ دونوں کا بیانیہ جدا ہے۔‘
ارشد عزیز ملک کے مطابق سہیل آفریدی ایک ہارڈ لائنر تصور کیے جاتے ہیں جو ہر معاملے پر سخت بیانیہ اختیار کرتے ہیں۔ انہوں نے اگر وزیراعلٰی بننے کے بعد سخت مؤقف اپنایا تو صوبے کے معاملات چلانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ رہائی کی تحریک چلانے میں اور صوبہ چلانے میں بہت فرق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سہیل آفریدی کے پاس علی امین گنڈاپور کے مقابلے میں تجربہ کم ہے اور وہ سیاسی دائو پیچ سے ناواقف ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے حکومت چلانا سیکھ لیا تھا اور وہ اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چل رہے تھے تاہم نومنتخب وزیراعلٰی کے لیے صوبے کے معاملات چلانا آسان نہیں ہو گا۔‘
سینیئر صحافی شمیم شاہد کہتے ہیں کہ ’سہیل آفریدی کا انتخاب مراد سعید کے مشورے پر کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نامزد وزیراعلٰی سہیل آفریدی مراد سعید سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے قریبی ساتھی ہیں جب کہ ان کا بیانیہ بھی مراد سعید کی طرح اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دیکھنا اب یہ ہے کہ پارٹی کے دیگر اراکین سہیل آفریدی کو سپورٹ کرتے ہیں یا ان کی مخالفت کیوں کہ پارٹی کے اندر اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔‘
