’مارو اسے مارو‘: کشمیر احتجاج کے دوران زوبیہ خورشید نے زخمی پولیس اہلکار کو کیسے بچایا
’مارو اسے مارو‘: کشمیر احتجاج کے دوران زوبیہ خورشید نے زخمی پولیس اہلکار کو کیسے بچایا
جمعرات 9 اکتوبر 2025 7:14
ثوبان افتخار راجہ -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 29 ستمبر سے چار اکتوبر تک مظاہرے کیے گئے (فوٹو: اے ایف پی)
’میں ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر پہنچی تو مظاہرین کا بڑا مجمع وہاں موجود تھا، انہوں نے گاڑی کو راستہ تو دیا مگر جب انہیں علم ہوا کہ میں ایک زخمی پولیس اہلکار کو لے کر آئی ہوں تو وہ مشتعل ہو گئے۔ مجھے یہ آوازیں سنائی دیں کہ مارو اسے مارو، یہ پولیس اہلکار کو لے کر آئی ہے۔ پولیس والے ہمارے لوگوں پر سیدھا فائرنگ کر رہے ہیں اور انہیں فرسٹ ایڈ حاصل نہیں کرنے دے رہے۔‘
یہ کہنا ہے زوبیہ خورشید راجہ کا جو پاکستان کے زیرانتطام کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے حالیہ احتجاج کے دوران دھیرکوٹ کے مقام پر زخمی ہونے والے ایک پولیس اہلکار کو اپنی گاڑی میں ریسکیو کر کے ضلعی صحت مرکز باغ پہنچیں تو مشتعل مظاہرین نے ان پر دھاوا بول دیا۔
حالیہ احتجاج کے دوران یکم اکتوبر کو دھیرکوٹ کے علاقے چمیاٹی میں قانون نافذ کرنے والی فورسز اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد کی اموات ہوئیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے۔
اس دوران کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند ہونے کی وجہ سے کئی واقعات کی تفصیل اب سامنے آ رہی ہیں۔
پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل ہجوم ایک کار پر مُکے اور ڈنڈے برسا رہا ہے۔
اس ویڈیو کے متعلق مختلف دعوے کیے گئے تاہم اردو نیوز نے اس گاڑی کو ڈرائیو کرنے اور زخمی پولیس اہلکار کو ریسکیو کرنے والی زوبیہ خورشید راجہ سے بات کی ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ ’میں قصبہ دھیرکوٹ کی رہائشی ہوں، عوامی تحریک کے قافلے میں میرے گھر کے افراد اور رشتہ دار بھی موجود تھے۔ جب یکم اکتوبر کو دوپہر کے وقت فائرنگ اور تصادم کی خبریں علاقے میں پھیل گئیں تو انٹرنیٹ اور موبائل سروس نہ ہونے کی وجہ سے تفصیلات کا علم نہیں ہو رہا تھا۔ مجھے اپنے رشتہ داروں سے متعلق تشویش ہوئی تو میں ان کی خیریت معلوم کرنے اور صورتحال کا پتہ لگانے دھیرکوٹ ہسپتال پہنچی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ہر طرف زخمی افراد ہیں، ہسپتال انتظامیہ اور ایکشن کمیٹی کے رضاکار زخمیوں کی مرہم پٹی میں مصروف ہیں جبکہ وہاں پر بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ ایک مریض شدید زخمی ہے اور دل کا مریض ہے، اسے ضلعی ہیڈکواٹر ہسپتال باغ میں منتقل کرنا ہے، ایمبولینس یا پھر کوئی دوسری سہولت دستیاب نہیں ہے، کوئی گاڑی والا شخص اسے باغ لے جائے اور اس کی جان بچائے، چونکہ وہاں پر کوئی اور گاڑی والا موجود نہیں تھا تو میں اسے ریسکیو کرنے کے لیے آگے بڑھی۔‘
زوبیہ خورشید راجہ نے باغ ہسپتال پہنچ کر ایک مشتعل ہجوم کا سامنا کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’باغ ہسپتال کی ایمرجنسی میں ایک بڑا ہجوم تھا، وہاں کسی نے آواز لگائی کہ اس لڑکی نے پولیس اہلکار کو لایا ہے تو بغیر دیکھے سنے ڈنڈے، سٹول اور لوہے کے راڈ اٹھائے یہ ہجوم میری گاڑی پر چڑھ دوڑا۔‘
’لوگوں نے گاڑی پر ڈنڈے برسائے اور شیشے بھی توڑے، میری گاڑی ٹوٹ گئی، میں نے اپنے اعصاب پر قابو رکھے اور گاڑی سے باہر نکلی، میرے ہاتھ میں کشمیر کا جھنڈا تھا، میں نے باآواز بلند کہا کہ اس جھنڈے کی یہ عزت ہے کہ آپ ایک زخمی کو ریسکیو کرنے والی لڑکی پر حملہ آور ہوں تو اس کے بعد کچھ لوگ آگے بڑھے اور مجھے ہجوم سے باحفاظت باہر نکالا۔‘
ضلعی ہیڈ کوراٹر ہسپتال باغ کے انتظامات کی نگرانی کرنے والے ایک سینیئر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’یکم اکتوبر کو شام ساڑھے تین بجے کے بعد زخمیوں اور لاشوں کو ہسپتال لانے کا سلسلہ شروع ہوا، ابتدائی طور پر چھ یا سات زخمی پولیس اہلکار ہسپتال پہنچائے گئے تو کشمیر کی مقامی پولیس کے ایک ڈی ایس پی کچھ جوانوں کے ساتھ ہسپتال آ گئے اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ہسپتال کی سکیورٹی سنبھالیں گے۔‘
زوبیہ خورشید نے زخمی پولیس اہلکار کو زخمی کیا (فوٹو: فیس بُک)
’اس سے کچھ ہی دیر بعد پولیس سمیت کچھ مزید زخمی ہسپتال لائے گئے، شہر سمیت نواحی علاقوں میں فائرنگ کی خبر پھیل چکی تھی اور مختلف علاقوں سے لوگ اپنے پیاروں کی خبر گیری کے لیے ہسپتال پہنچ رہے تھے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’ہسپتال کی سکیورٹی پر مامور ڈی ایس پی کی کسی عام آدمی کے ساتھ کوئی تلخ کلامی ہوئی تو اس کے نتیجے میں ڈی ایس پی کو تھپڑ مارے گئے، عوام کی تعداد بڑھ رہی تھی اور لوگوں میں غم و غصہ بھی زیادہ تھا تو سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے ڈی ایس پی سمیت وہاں سے غائب ہونے میں ہی عافیت جانی، اس کے بعد ہسپتال سمیت باغ شہر کا مکمل کنٹرول بظاہر مظاہرین کے ہاتھ میں تھا۔‘
انہوں نے مریضوں کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’یکم اکتوبر کو کُل 45 مریض ہسپتال لائے گئے جن میں اکثر عام شہری تھے۔
’فائرنگ کی وجہ سے نوجوان بہت زیادہ مشتعل تھے، ہسپتال پہنچنے والوں کی اکثریت کو خدشہ تھا کہ شاید ان کے کسی اپنے کو بھی گولی لگی ہے اور وہ زخمی ہے، ہجوم پولیس اہلکاروں کی تلاش میں تھا۔‘
’کچھ زخمی پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہجوم نے ناروا سلوک کرنے کی کوشش کی لیکن ہم نے معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کے رضاکاروں کی مدد سے تمام زخمی پولیس اہلکاروں کو بچوں کی وارڈ میں شفٹ کیا اور دروازے کو تالا لگا دیا۔ زخمیوں کو بچانے کے لیے مقامی افراد نے خون کے عطیات بھی دیے اور گھمبیر صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کی۔‘
احتجاج کے دوران تصادم کے نتیجے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد کی اموات ہوئیں (فوٹو: اے ایف پی)
باغ شہر سے تعلق رکھنے والے راجہ ثاقب کبیر بھی ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے یکم اکتوبر کو ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ مل کر رضاکارانہ طور پر لوگوں کی جانیں بچائیں۔
اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’فائرنگ کی خبر پھیلنے کی وجہ سے لوگ بہت مشتعل تھے، ہم چونکہ یہاں کے مقامی باشندے ہیں تو فوری ہی ہسپتال پہنچ گئے، نوجوانوں کی اکثریت غصے میں تھی لیکن ہمارے مقامی افراد نے آگے بڑھ کر ہجوم کو سمجھانے کی کوشش کی، ہمارے لوگوں نے بلاتفریق زخمیوں کو نہ صرف ریسکیو کیا بلکہ خون کے عطیات بھی دے کر ان کی جانیں بچائیں۔‘
29 ستمبر سے چار اکتوبر تک پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں 38 نکاتی چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کی منظوری کے لیے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے جس کے دوران مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات میں 10 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 300 سے زائد زخمی ہیں۔
اس کے بعد چار اکتوبر کو اسلام آباد کی مذاکراتی ٹیم اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں مطالبات کی منظوری کا ایک معاہدہ طے پایا جس کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا۔