پاکستان میں شمسی توانائی کا فروغ مگر شفافیت کا بحران برقرار
پاکستان میں شمسی توانائی کا فروغ مگر شفافیت کا بحران برقرار
اتوار 12 اکتوبر 2025 5:43
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران سولر پینلز کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور اس اضافے کے نتیجے میں ان کی درآمد میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے متعدد نئی کمپنیاں بھی سامنے آئی ہیں جنہوں نے سولر پینلز درآمد کرنے کا کام شروع کیا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے قابلِ تجدید توانائی کے فروغ کے لیے سولر پینلز کی درآمد پر دیگر شعبوں کے مقابلے میں ٹیکس میں نرمی اور استثنیٰ دیا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اور کمپنیوں کی اس شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
تاہم اس دوران کچھ ایسے سکینڈلز بھی سامنے آئے جن میں بعض کمپنیوں پر سولر پینلز کی درآمد میں مبینہ طور پر اوور انوائسنگ کے الزامات لگے۔
یعنی درآمد شدہ سامان کی اصل قیمت کم تھی، مگر کاغذی طور پر زیادہ ظاہر کر کے اس کے بدلے میں اضافی رقوم بیرونِ ملک منتقل کی گئیں۔
ایسے واقعات گذشتہ چند برسوں کے دوران وقفے وقفے سے سامنے آتے رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں ایک بار پھر ایک صوبائی حکومت کی سولر امپورٹ پالیسی پر نئے تنازعے نے جنم لیا ہے۔
اردو نیوز نے زیرِنظر رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں سولر پینلز کی امپورٹ متنازع کیوں بنی، اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اور سولر پینلز کی درآمد پر حکومت کی پالیسی کیا ہے؟
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں سولر پینلز کی درآمد کے لیے حکومت نے ماضی میں کئی سہولتوں کا اعلان کیا۔
عام طور پر ملک میں درآمد ہونے والی اشیا پر 18 فیصد یا اس سے زائد سیلز ٹیکس کے علاوہ امپورٹ ڈیوٹی اور دیگر محصولات عائد ہوتے ہیں۔
تاہم وفاقی حکومت نے 2025 سے قبل تک سولر پینلز کی درآمد پر کسی قسم کا ٹیکس عائد نہیں کیا تھا۔ البتہ مالی سال 2026-2025 کے بجٹ میں مقامی سطح پر سولر پینلز کی فروخت پر 10 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کیا گیا۔
یف بی آر کے مطابق مکمل تیارشدہ سولر پینلز پر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا، لیکن اگر پینلز کے پُرزے درآمد کیے جائیں اور مقامی طور پر اسمبلنگ یا مینوفیکچرنگ کی جائے تو اِن پر 10 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔
یعنی دیگر شعبوں کے مقابلے میں سولر سیکٹر پر ٹیکس کی شرح اب بھی کم ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کار اور صارفین اس شعبے میں دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ایف بی آر نے درآمد کیے گئے سولر پینلز کی اصل قیمتوں کی تصدیق کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
دوسری جانب سولر پینلز کی درآمد میں بے ضابطگیوں کی روک تھام کے لیے ایف بی آر نے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ ادارے نے ’ڈائریکٹر جنرل سپیشل انیشی ایٹیوز کسٹمز‘ کے نام سے خصوصی دفتر قائم کیا ہے جو سمگلنگ، غلط انوائسنگ اور ریوینیو لیکیجز کی نشان دہی کرتا ہے۔
ایف بی آر نے درآمد کیے گئے سولر پینلز کی اصل قیمتوں کی تصدیق اور چین، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک سے برآمدی ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
کسٹمز حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ ’اس عمل میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی جائے۔‘ اردو نیوز نے اس معاملے پر شمسی توانائی اور معیشت سے وابستہ ماہرین سے بھی بات کی ہے۔
قابلِ تجدید توانائی کے ماہر ڈاکٹر بشارت حسن سمجھتے ہیں کہ ’اوور انوائسنگ جیسی بے ضابطگیاں صرف سولر پینلز کے شعبے تک محدود نہیں بلکہ تقریباً ہر امپورٹ سیکٹر میں پائی جاتی ہیں چنانچہ اس کا سولر پینلز سے کوئی خاص تعلق نہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’بعض حلقے جو قابلِ تجدید توانائی کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، وہ سولر انڈسٹری کے خلاف منفی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
سولر سیکٹر پر ٹیکس کی کم شرح کی وجہ سے سرمایہ کار اور صارفین کی اس شعبے میں دلچسپی برقرار ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ڈاکٹر بشارت حسن کا مزید کہنا ہے کہ ’درحقیقت توانائی کے دوسرے ذرائع میں کہیں زیادہ بے ضابطگیاں موجود ہیں مگر اُن پر توجہ نہیں دی جاتی۔‘
اسی معاملے پر ٹیکس امور کے ماہر ہارون شریف کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی تجارت میں انوائسنگ کی دو بنیادی اقسام ہوتی ہیں۔
’ایک انڈر انوائسنگ، جس میں قیمت کم ظاہر کر کے ڈیوٹی سے بچا جاتا ہے، اور دوسری اوور انوائسنگ، جس میں زیادہ رقم ظاہر کر کے ڈالرز بیرونِ ملک منتقل کیے جاتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’سولر پینلز کے معاملے میں بھی بعض کمپنیوں نے حقیقی قیمت سے کئی گنا زیادہ ادائیگی ظاہر کی، حتیٰ کہ کچھ جعلی کمپنیاں صرف اسی مقصد کے لیے بنائی گئیں جو بعد میں کسی ریکارڈ میں نہیں ملتیں۔‘
ہارون شریف نے یہ بھی کہا کہ ’اس قسم کی سرگرمی بینکنگ سیکٹر، ایف بی آر اور کسٹم حکام کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔‘
انہوں نے تجویز دی کہ ’ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ امپورٹ کے نظام کو مزید مضبوط بنائے اور صرف ان کمپنیوں کو سولر پینلز درآمد کرنے کی اجازت دی جائے جو کم سے کم پانچ سال کا تجربہ رکھتی ہوں، ایس ای سی پی میں باقاعدہ رجسٹرڈ ہوں اور ٹیکس ریٹرنز باقاعدگی سے جمع کراتی ہوں۔‘