اعلیٰ ڈگری، زیادہ بے روزگاری: پاکستان میں یہ مسئلہ کیوں پیش آ رہا ہے؟
اعلیٰ ڈگری، زیادہ بے روزگاری: پاکستان میں یہ مسئلہ کیوں پیش آ رہا ہے؟
بدھ 26 نومبر 2025 14:52
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
پانچ سال میں بے روزگار افراد کی تعداد 45 لاکھ سے بڑھ کر60 لاکھ ہو گئی: فائل فوٹو اے ایف پی
پاکستان میں روشن مستقبل اور بہتر روزگار کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جاتی ہے لیکن حالیہ سرکاری سروے کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بے روزگار اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہی ہیں۔
پاکستان میں تازہ اعداد و شمار ملک میں ’جتنی بڑی ڈگری، بے روزگاری کی شرح اتنی زیادہ‘ کی عکاسی کرتے ہیں جسے موجودہ نظام تعلیم کے لیے لمحۂ فکریہ قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان لیبر فورس سروے 2025 کے مطابق سب سے زیادہ بے روزگاری اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں ہے۔
ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے 11.9 فیصد افراد روزگار سے محروم ہیں۔ اگرچہ 2020-21 میں یہ شرح 12.2 فیصد تھی، لیکن معمولی کمی کے باوجود بے روزگاری بدستور بلند ترین سطح پر موجود ہے۔
اسی طرح گریجویشن کی سطح پر 10.9 فیصد افراد نوکری نہیں پا سکے جبکہ 2020-21 میں یہ شرح 16.3 فیصد تھی۔
دوسری طرف انٹرمیڈیٹ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 12.5 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، جو 2020-21 میں 11.7 فیصد تھی۔
اعداد و شمار کے مطابق میٹرک اور اس سے کم تعلیم یافتہ افراد میں بے روزگاری نسبتاً کم ہے۔ 2025 میں میٹرک پاس افراد کی بے روزگاری 8.4 فیصد رہی، جو 2020-21 میں 8.6 فیصد تھی، جبکہ میٹرک سے کم تعلیم رکھنے والوں میں بے روزگاری 6 فیصد ہے۔
حیران کن پہلو یہ ہے کہ ان پڑھ افراد میں بے روزگاری 4.4 فیصد ہے، جو 2020-21 میں 3.2 فیصد تھی، لیکن پھر بھی یہ شرح انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے تعلیمی ڈھانچے اور ڈگریوں کی مارکیٹ ویلیو پر سنگین سوالات اٹھا رہی ہے۔
ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر کامران لطیف اس بحران کا ذمہ دار تعلیم اور صنعت کے درمیان موجود خلیج کو قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق ’ہماری جامعات ڈگریاں تو جاری کر رہی ہیں، مگر ملکی معیشت، صنعت اور ٹیکنالوجی کی ضرورت کے حساب سے ہنر مند افراد نہیں دے رہیں۔ جب مارکیٹ ڈگری کو قبول ہی نہ کرے تو نوجوانوں کے پاس بے روزگاری کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر معاشی ڈھانچہ پھیلنے کے بجائے سکڑ رہا ہو تو اعلیٰ تعلیم صرف سرٹیفکیٹ تک محدود ہو جاتی ہے، اور نوجوانوں کی امیدیں پھیلنے کے بجائے مرجھا جاتی ہیں۔
پاکستان میں ملازمت کے کم مواقعوں کی وجہ سے غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے: فائل فوٹو اے ایف پی
پروفیسر فرزانہ ندیم کہتی ہیں کہ ’پاکستان کی یونیورسٹیاں ڈگریاں تو فراہم کرتی ہیں، مگر طلبہ کو ٹیکنیکل سکلز، ڈیجیٹل مہارتوں اور انٹرن شپ کلچر سے محروم رکھتی ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل اکانومی، ایگریکلچر ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور جدید صنعتی تربیت کو تعلیم سے نہیں جوڑا جاتا، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد بے روزگاروں کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں صرف ڈگری دینا کافی نہیں، بلکہ نوجوانوں کو کمائی کا راستہ بھی سکھانا ہو گا۔ پڑھے لکھے نوجوان ہاتھ سے کام کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں جبکہ تعلیم اور ہنر مل کر بہتر روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور اداروں اور پالیسی سازوں کو نہ صرف اس پر توجہ دینی چاہیے بلکہ نوجوانوں کی ذہن سازی بھی کرنی چاہیے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں گذشتہ پانچ سال کے دوران بے روزگاری کی مجموعی شرح 6.3 فیصد سے بڑھ کر 7.1 فیصد ہو گئی ہے۔ پانچ سال بعد سامنے آنے والے قومی لیبر فورس سروے 2024-25 کے نتائج کے مطابق ملک میں لیبر فورس کی تعداد 7 کروڑ 18 لاکھ سے بڑھ کر 8 کروڑ 31 لاکھ ہوگئی ہے۔
پاکستان میں بے روزگاری کے علاوہ کم اجرت دینا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے: فائل فوٹو اے ایف پی
سروے کے مطابق پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی میں کام کرنے کے اہل افراد 43 فیصد اور غیرفعال آبادی 53.8 فیصد ہے۔
پانچ سال میں بے روزگار افراد کی تعداد 45 لاکھ سے بڑھ کر تقریباً 60 لاکھ ہو گئی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ملکی معیشت روزگار پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق روزگار کی فراہمی میں خدمات کا شعبہ 41.7 فیصد کے ساتھ پہلے، زراعت 33.1 فیصد کے ساتھ دوسرے اور صنعت 25.7 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
سروسز سیکٹر میں 3 کروڑ 18 لاکھ 30 ہزار افراد ملازمت اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مجموعی طور پر پاکستان میں فی کس ماہانہ اوسط اجرت 39,042 روپے ہے، جس میں گذشتہ پانچ سال کے دوران صرف 15 ہزار روپے اضافہ ہوا، جبکہ 2020-21 میں اوسط ماہانہ تنخواہ 24,028 روپے تھی۔