ریاض انٹرنیشنل بُک فیئر2025 نے خواتین لکھاریوں کی توجہ حاصل کر لی ہے جو ان کی تخلیقی صلاحتیوں اور مملکت کے ابھرتے ہوئے ادبی منظر نامے میں ان کی موجودگی کا مظہر ہے۔
خواتین مصنفوں میں جنھوں نے اپنی تازہ ترین تخالیق اور کہانیاں شیئر کی ہیں، مھا الرشید شامل ہیں جن کی نئی کتاب ’میرے شہر کی کہانیاں‘، شہری علاقوں کے بارے میں بتاتی ہیں جہاں پرانی گلیوں میں نئی زندگی کی ریل پیل ہے۔
مزید پڑھیں
وہ لکھتی ہیں کہ ’یہ کہانیاں ’شہر کے کونے کونے میں چھپی ہوئی ہیں‘ اور یوں وہ پڑھنے والوں کو وقت کے ذریعے ماضی کے سفر پر لے جاتی ہیں جہاں وہ مقام، یاد اور جذبات کو آپس میں ملا بھی دیتی ہیں۔‘
مھا الرشید نے اپنی کتاب 18 ماہ میں لکھی ہے جو ان کے مطابق ’شہروں کے نام عقیدت کا ایک اظہار ہے جو جتنا ہمیں بدلتے ہیں اُتنا ہی ہم انھیں تبدیل کرتے ہیں۔‘
ایک اور تخیلاتی مصنفہ جو عرب نیوز کو ریاض کے بک فیئر میں ملیں، نجاح سلامہ ہیں۔ ان کی پانچویں تصنیف ’قُوت: دی جیولری کلیکٹر‘، عربی زبان میں شائع ہوئی ہے اور پڑھنے والوں کو ایک مسحُور کُن خیالی دنیا کے سفر پر لے جاتی ہے۔

اس دنیا میں بد رُوحیں اور آسیب کے ساتھ جل پریاں بھی ہیں اور ہر کردار اپنے ہی راز میں چُھپا ہوا ہے۔ ان کی کتاب، جل پری کی کہانیوں اور کیریبیئن کے قزاقوں کا ایک امتزاج ہے۔
نجاح سلامہ نے بتایا کہ ’یہ کہانی ایک، تخیلاتی سمندری سفر ہے جہاں آسیب اور جل پریاں بحری قزاقوں سے ایسے ملتی ہیں کہ انہیں جدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے جبکہ مستقبل کے کردار ماضی کے راستوں کا سفر اختیار کر لیتے ہیں۔‘
منیرہ العیدان نے بھی اپنی پہلی کتاب ’ان دا ڈیپتھ آف آور مائنڈز‘ بک فیئر میں پیش کی جو شاعری اور مختصر ٹیکسٹ پر مبنی ہے اور آج کل کی متصّب اور سودائی دنیا میں پیش آنے والے جذباتی اور نفسیاتی چیلنجز کا کھوج لگاتی ہے۔

منیرہ العیدان نے بتایا کہ ’یہ کتاب ان کی تین برس کی محنت اور سوچ بچار کا نتیجہ ہے۔‘
ان کا کام گِر کر اٹھنے اور سنبھلنے، کمزوری اور تلاشِ ذات پر مرکوز ہے جو پڑھنے والوں کو ان پیچدہ جذبات کی جھلک دکھاتا ہے جنھیں وہ محسوس تو کرتے ہیں لیکن اس کا ذکر کبھی کبھار ہی کرتے ہیں۔
اس سال، بک فیئر میں مرد و خواتین مصنفین کے لیے علیحدہ علیحدہ پلیٹ فارم بنائے گئے تھے جہاں آنے والے افراد، مختلف لکھاریوں سے مل سکتے تھے۔

یہ بک فیئر، نئے منصفوں کو تعاون فراہم کرنے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے اور کئی لکھاری اسے دوسرے لوگوں اور اپنے پڑھنے والوں تک رسائی کا ایک موقع سمجھتے ہیں جہاں وہ اپنے خیالات کا تعارف دوسروں سے کرا سکتے ہیں اور ان سے قابلِ قدر فیڈ بیک لے سکتے ہیں۔
ان میں ایک مصنفہ امل حمدان بھی تھیں جنھوں نے عربی زبان میں لکھی اپنی پہلی کتاب کا یہاں افتتاح کیا جس کا نام ہے ’امل کے تاثرات‘۔
انھوں نے اس بات کی تعریف کی کہ انھیں اپنے کام کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملا ہے جس میں انھوں نے پڑھنے والوں کے ساتھ بطور صحافی اور ثقافتی لکھاری، اپنے چار برس کے سفر کا ذکر بھی کیا۔

امل حمدان کو امید ہے کہ وہ نوجوان سعودیوں کے لیے تحریک کا باعث بنیں گی کہ وہ بھی اپنے ادبی اور فنکارانہ ٹیلنٹ کو نمایاں کریں اور مملکت کے ثقافتی منظر نامے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں کہا کہ پہلی کتاب شائع کرنا ایک خواب تھا جو سچائی بن گیا ہے۔
ریاض انٹرنیشنل بُک فیئر کو سعودی وزارتِ ثقافت کا ’لٹریچر، پبلشنگ اینڈ ٹرانسلیشن کمیشن‘ منعقد کراتا ہے۔
دس روزہ تقریب امیرہ نورہ بنتِ عبدالرحمن یونیورسٹی میں جاری ہے جو سنیچر کو اختتام کو پہنچے گی۔ اس سال کے بک فیئر میں ازبکستان کو اعزازی مہمان کا درجہ دیا گیا۔